Best Novel Of The Year All Time Super Duper 💖👌👌👌💖 2025 True Story

ایک خواب سی - Premium ناول

✨ ایک خواب سی ✨

1

فیس بک کی پہلی ملاقات - ایک نئے سفر کا آغاز

تاریخ: 15 مارچ 2015, جمعرات
وقت: رات 11:30 بجے
موسم: بہار کی خوشگوار رات
جذبات: تجسس، ہلکی گھبراہٹ، خوشی

زینب کا کمرہ کتابوں سے بھرا ہوا تھا۔ دیواروں پر شاعری کے اقتباسات، میز پر بکھری کتابیں، اور بستر پر غالب کا دیوان۔ وہ "؎ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے" پڑھ ہی رہی تھی کہ فون کی آواز نے سکون توڑا۔

زینب (اپنے آپ سے): "کون ہو سکتا ہے اس وقت؟ شاید امی نے فون کیا ہو۔"

لیکن یہ فون نہیں، فیس بک کا نوٹیفکیشن تھا۔ "ادبی دنیا" گروپ میں یاسر نامی ایک لڑکے نے اس کی پوسٹ پر comment کیا تھا۔

یاسر کا comment: "غالب کے اس شعر میں جو درد ہے، وہ ہر محبت کرنے والے کے دل کی دھڑکن بن جاتا ہے۔ کیا آپ نے کبھی محسوس کیا ہے کہ شاعری محض الفاظ نہیں، بلکہ دل کی زبان ہے؟"

زینب نے جواب لکھنا شروع کیا۔ انگلیاں تیزی سے چل رہی تھیں۔ دل کی دھڑکنیں تیز تھیں۔

زینب کا reply: "بالکل! غالب کے اشعار میں وہ گہرائی ہے جو برسوں بعد بھی تازہ محسوس ہوتی ہے۔ کیا آپ بھی شاعری سے اتنا ہی لگاؤ رکھتے ہیں جتنا آپ کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے؟"

رات کے 2 بجے تک بات چیت جاری رہی۔ دونوں نے محسوس کیا کہ ان کے درمیان ایک فطری ہم آہنگی ہے۔ جیسے وہ سالوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں۔

"پہلی ملاقات ایسی تھی جیسے کوئی پرانا دوست مل رہا ہو۔ الفاظ خود بخود بہہ نکلے، اور دل نے تسلیم کر لیا کہ یہ محض اتفاق نہیں ہے۔"
2

پہلی فون کال - آوازوں کا میل

تاریخ: 18 مارچ 2015, اتوار
دورانیہ: 3 گھنٹے 15 منٹ
وقت: شام 7:45 بجے سے رات 11:00 بجے تک
کیفیات: گھبراہٹ، جوش، ہچکچاہٹ

زینب کا فون بجا تو اس کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ نام显示 یاسر تھا۔ وہ کئی بار فون اٹھانے سے پہلے ہچکچائی۔

زینب (پہلی بار بولتے ہوئے): "ہیلو...؟"
یاسر (مسکراتے ہوئے): "زینب؟ میں یاسر بول رہا ہوں۔ امید ہے میں بروقت نہیں کر رہا؟"

پہلے پندرہ منٹ دونوں ہچکچاہٹ کا شکار رہے۔ پھر بات چیت رواں ہو گئی۔ یاسر نے اپنے بچپن کے خواب بتائے، زینب نے اپنی ادبی آرزوئیں شیئر کیں۔

زینب: "میں چاہتی ہوں کہ ایک لائبریری کھولوں جہاں غریب بچے مفت پڑھ سکیں۔ کتابیں ہر کسی کی پہنچ میں ہونی چاہئیں۔"
یاسر: "واہ، بہت خوبصورت خواب ہے! میں بھی چاہتا ہوں کہ میرا کاروبار صرف پیسہ کمانے کا ذریعہ نہ ہو، بلکہ لوگوں کے کام آئے۔"

تین گھنٹے گزر گئے مگر دونوں کو وقت کا احساس تک نہ ہوا۔ جب فون رکھا تو دونوں کے چہرے پر مسکان تھی۔

"پہلی فون کال ایسی تھی جیسے دو روحیں آپس میں بات کر رہی ہوں۔ وقت رک گیا تھا، اور الفاظ خود بخود بہہ نکلے تھے۔"
3

پہلی ملاقات - آنکھوں کی زبان

تاریخ: 12 اپریل 2015, اتوار
مقام: بحیرہ ہوٹل، کافی شاپ
وقت: دوپہر 2:00 بجے سے شام 6:00 بجے تک
موسم: ہلکی دھوپ، خوشگوار ہوا

زینب نے پیلے رنگ کی ساڑی پہنی تھی۔ وہ 15 منٹ پہلے ہی پہنچ گئی تھی۔ دل کی دھڑکنیں تیز تھیں۔ ہاتھوں میں پسینہ آ رہا تھا۔

زینب (اپنے آپ سے): "کیا وہ مجھے پسند کرے گا؟ کیا میں اس کی توقعات پر پوری اتروں گی؟"

2:05 بجے یاسر نیلے رنگ کی shirt میں آیا۔ دونوں کی نظریں ملیں تو وقت رک سا گیا۔

یاسر (مسکراتے ہوئے): "زینب؟ میں یاسر۔ آپ بالکل ویسے ہی ہیں جیسے میں نے سوچا تھا۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ خوبصورت۔"
زینب (شرماتے ہوئے): "شکریہ۔ آپ بھی تو ویسے ہی ہیں جیسے میں نے تصور کیا تھا۔"

چار گھنٹے تک بات چیت ہوئی۔ کافی کے کپ خالی ہو گئے، مگر باتوں کا سلسلہ جاری رہا۔

"پہلی ملاقات میں ہی معلوم ہو گیا تھا کہ یہ محض ایک ملاقات نہیں، بلکہ ایک نئے رشتے کی ابتدا ہے۔ آنکھوں نے وہ کہہ دیا جو الفاظ کہنے سے قاصر تھے۔"
4

دل کی دھڑکنیں - محبت کا اعتراف

تاریخ: 15 مئی 2015, جمعہ
وقت: رات 11:30 بجے
مقام: دونوں اپنے اپنے گھروں میں
جذبات: گھبراہٹ، خوشی، ڈر

فون کی گھنٹی بجی تو زینب کی ماں نے کمرے سے آواز دی: "زینب! اتنی رات کو کون فون کر رہا ہے؟"

زینب: "امی! کوئی ضروری بات ہوگی، میں ابھی آتی ہوں۔"

زینب نے فون اٹھایا تو یاسر کی آواز میں ایک عجیب سی گھبراہٹ تھی۔

یاسر: "زینب... تمہیں پتا ہے میں آج پورا دن کیا سوچتا رہا؟"
زینب (گھبرا کر): "کیا ہوا یاسر؟ تمہاری آواز میں اتنی سنجیدگی کیوں ہے؟ سب ٹھیک تو ہے نا؟"
یاسر (گہری سانس لے کر): "زینب... میں تمہارے بغیر اپنی زندگی کا تصور تک نہیں کر سکتا۔ تم میرے لیے صرف ایک دوست نہیں ہو... تم میری زندگی کا سب سے خوبصورت حصہ ہو۔"

زینب کی سانس رک سی گئی۔ اس کا ہاتھ کانپ رہا تھا۔ آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

زینب (آنسوؤں میں): "یاسر... میں بھی تمہیں چاہتی ہوں۔ تمہاری ہر بات، تمہاری سوچ، تمہارا وجود... سب کچھ میرے لیے اتنا خاص ہے۔"
یاسر (خوشی سے): "کہنا مت... میں تمہیں ہمیشہ خوش رکھوں گا زینب۔ ہم مل کر اپنے تمام خواب پورے کریں گے۔"

اس رات دونوں نے سوتے سوتے بھی فون اپنے پاس رکھا۔ جیسے ڈر تھا کہ کہیں یہ خواب ٹوٹ نہ جائے۔

"پہلی بار محبت کا اعتراف ایسے تھا جیسے کوئی پھول کھل رہا ہو۔ خاموشی سے، مگر پورے وجود کے ساتھ۔ اور پھر زندگی نے ایک نئی جہت پا لی۔"
5

بادل - خاندانی دباؤ کا آغاز

تاریخ: جون 2015 کا آخر
واقعہ: زینب کی بہن کی شادی کی تیاریاں
جذبات: خوف، پریشانی، بے چینی

زینب کی چھوٹی بہن سارہ کی شادی کی تیاریاں زوروں پر تھیں۔ گھر میں خوشی کا ماحول تھا، مگر زینب کے دل پر ایک بوجھ تھا۔

والدہ (خوشی سے): "زینب! دیکھو سارہ کی شادی ہو رہی ہے۔ تمہاری باری بھی آئے گی۔ ڈاکٹر احمد کا رشتہ آیا ہے، بہت اچھا لڑکا ہے۔"
زینب (گھبرا کر): "امی... میں ابھی شادی کے بارے میں نہیں سوچ رہی۔ میں تو اپنی پڑھائی مکمل کرنا چاہتی ہوں۔"
والد (سختی سے): "تمہاری عمر ہو چکی ہے زینب۔ ڈاکٹر احمد بہت اچھے خاندان سے ہیں۔ تمہاری خوشی کے لیے ہی تو کر رہے ہیں۔"

رات کو زینب نے یاسر کو فون کیا۔ آواز روندھی ہوئی تھی۔

زینب (روتے ہوئے): "یاسر... گھر والوں نے میری شادی کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ہے۔ میں کیا کروں؟"
یاسر (پریشان ہو کر): "گھبراؤ مت زینب۔ میں تمہارے والدین سے بات کرتا ہوں۔ ہم انہیں سمجھا سکتے ہیں۔"
زینب (مایوسی سے): "نہیں یاسر... تم نہیں جانتے میرے والدین کو۔ وہ کبھی نہیں مانے گے۔ ہماری ذاتیں الگ ہیں... ہمارے خاندان..."
"خاندانی دباؤ ایسے تھا جیسے کوئی طوفان آ رہا ہو۔ ہوا کے جھونکے تیزی سے چل رہے تھے، اور محبت کا پودا ڈگمگا رہا تھا۔"
6

ٹوٹتے خواب - مجبوریوں کا سامنا

تاریخ: جولائی 2015 کا وسط
واقعہ: والد کا دل کا دورہ
جذبات: مجبوری، درد، ہار

زینب کے والد کو دل کا دورہ پڑا۔ ہسپتال میں داخل ہوئے۔ ڈاکٹر نے کہا کہ ذہنی پریشانی سے پرہیز کریں۔

والدہ (روتے ہوئے): "زینب! دیکھو تمہارے والد کی حالت۔ اگر تم نے ڈاکٹر احمد کے رشتے سے انکار کیا تو تمہارے والد کا کیا ہوگا؟ تمہارے چھوٹے بہن بھائی ہیں، ان کا مستقبل ہے۔"
زینب (ٹूٹتے ہوئے): "امی... میں سمجھ گئی۔ میں اپنی خوشی کے لیے پورے خاندان کو تباہ نہیں کر سکتی۔"

ہسپتال کے باہر کوریڈور میں زینب نے یاسر کو فون کیا۔ آواز بالکل بے جان تھی۔

زینب (بے حسی سے): "یاسر... میں مجبور ہوں۔ میرے والد کی صحیت، چھوٹے بہن بھائیوں کا مستقبل... سب کچھ میرے اوپر ہے۔"
یاسر (حیرانی سے): "کیا کہہ رہی ہو زینب؟ ہم مل کر سب حل کر سکتے ہیں۔ تمہاری خوشی کے بغیر تمہاری زندگی کیسے گزرے گی؟"
زینب (آنسوؤں میں): "میرے پاس کوئی چارہ نہیں یاسر۔ میں تمہیں چھوڑ کر جا رہی ہوں... مگر تمہیں بھول نہیں سکتی۔"
"مجبوری ایسی تھی جیسے کوئی پھول ہوا کے تھپیڑوں کے سامنے بے بس ہو۔ زینب نے اپنی خوشی کو خاندان کی خاطر قربان کر دیا۔"
7

الوداع کا لمحہ - آخری ملاقات

تاریخ: 15 اگست 2015, ہفتہ
مقام: شہر سے دور ایک پرانا پارک
وقت: شام 5:00 بجے
موسم: بارش کے بعد کی تازہ ہوا

زینب نے سفید ساڑی پہنی تھی۔ یاسر کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا تحفہ تھا۔ دونوں کی آنکھیں نم تھیں۔

یاسر (گھٹی ہوئی آواز میں): "زینب... تمہیں پتا ہے میں کتنا درد محسوس کر رہا ہوں؟ ایسا لگ رہا ہے جیسے میرا سینہ پھٹ جائے گا۔"
زینب (آنسو پونچھتے ہوئے): "یاسر... تمہیں مجھے معاف کرنا۔ میں تمہارے ساتھ وہ سب کچھ نہیں کر سکی جو میں چاہتی تھی۔"
یاسر (تحفہ دیتے ہوئے): "یہ لو... تمہارے لیے ایک چھوٹی سی یادگار۔ اس میں وہ شعر ہے جو ہماری پہلی ملاقات کا سبب بنا تھا۔"

زینب نے تحفہ کھولا تو ایک چاندی کی چین نظر آئی جس پر غالب کا شعر کندہ تھا۔ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔

زینب (روندھی آواز میں): "میں تمہیں ہمیشہ یاد رکھوں گی یاسر۔ چاہے کتنی ہی دور کیوں نہ چلی جاؤں، تم میرے دل میں ہمیشہ زندہ رہو گے۔"
یاسر (گلے لگاتے ہوئے): "زینب... تمہاری خوشی میرے لیے سب سے اہم ہے۔ اگر ڈاکٹر احمد تمہیں خوش رکھ سکتے ہیں تو میں خوش ہوں گا۔"

سورج ڈوب رہا تھا۔ دونوں کی پرچھائیں لمبی ہو رہی تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وقت رک گیا ہو۔

"آخری ملاقات ایسی تھی جیسے کوئی پھول آخری بار کھل رہا ہو۔ ہر لمحہ قیمتی تھا، ہر لفظ یادگار۔ اور پھر زندگی نے ایک نیا موڑ لے لیا۔"
8

نیا سفر - شادی کا دن

تاریخ: 20 اگست 2015, جمعرات
مقام: شادی ہال "رویے"
وقت: شام 7:00 بجے
ماحول: شاندار تقریب، مگر بے روح

زینب نے سرخ و سنہری شادی کی پوشاک پہنی تھی۔ چہرے پر میک اپ تھا، مگر آنکھیں خالی تھیں۔ وہ ایک گڑیا کی مانند کھڑی تھی۔

سہیلی (خوشی سے): "زینب! تم تو بہت خوبصورت لگ رہی ہو! ڈاکٹر احمد بہت خوش قسمت ہیں۔"
زینب (مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ): "شکریہ... ہاں، وہ واقعی خوش قسمت ہیں۔"

دور سے یاسر دروازے کے پیچھے کھڑا سب دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔

یاسر (اپنے آپ سے): "زینب... تمہاری خوشی کے لیے میں یہ سب دیکھ رہا ہوں۔ خدا کرے تم ہمیشہ خوش رہو۔"

جب زینب نے ڈاکٹر احمد کے ساتھ stage پر قدم رکھا، اس کی نظر دروازے کی طرف گئی۔ اسے یاسر کی پرچھائیں نظر آئی۔ آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

والدہ (پریشان ہو کر): "زینب! روؤ مت۔ لوگ کیا کہیں گے۔ مسکراؤ... یہ تمہاری خوشی کا دن ہے۔"

رات کو جب سب سونے چلے گئے، زینب نے یاسر کو میسج کیا:

زینب کا میسج: "یاسر... میں تمہیں کبھی نہیں بھول سکتی۔ آج جب میں نے تمہیں دروازے پر دیکھا، میرا دل ٹوٹ گیا۔ معاف کرنا..."
"شادی کا دن ایسا تھا جیسے کوئی اپنے ہی جنازے میں شریک ہو رہا ہو۔ سب کچھ شاندار تھا، مگر دل مردہ تھا۔ اور آنسووں نے یہ راز سب پر عیاں کر دیا۔"
9

پرانی یادیں - نئی زندگی

دورانیہ: ستمبر 2015 - دسمبر 2016
مقام: ڈیفنس، لاہور
حالات: مالی آسودگی، مگر جذباتی خلا

زینب ڈیفنس کے ایک شاندار بنگلے میں رہنے لگی۔ ہر سہولت موجود تھی، مگر دل خالی تھا۔

ڈاکٹر احمد (مہربانی سے): "زینب، تمہارے لیے گاڑی آ گئی ہے۔ تمہیں جو چاہیے، مجھے بتانا۔ میں تمہیں ہر وہ چیز دلاؤں گا جو تم چاہو گی۔"
زینب (بے دلی سے): "شکریہ احمد... تم بہت مہربان ہو۔ مجھے سب کچھ مل گیا ہے۔"

ایک دن زینب نے اپنی پرانی ڈائری نکالی۔ یاسر کے خطوط، تصویریں، اور وہ شعر جس پر ان کی ملاقات ہوئی تھی۔

زینب (اپنے آپ سے): "یاسر... تمہیں پتا ہے میں کتنی تنہا ہوں؟ یہ شاندار گھر، یہ زندگی... سب کچھ ہے مگر تم نہیں ہو۔"

وہ چپکے سے رونے لگی۔ باہر بارش ہو رہی تھی۔ ہر قطرہ اس کے درد کی کہانی سناتا تھا。

یاسر کا میسج: "زینب، تم کیسی ہو؟ تمہاری تصویر دیکھی تو تمہاری یاد آ گئی۔ تمہاری مسکراہٹ میرے دل کو ٹھنڈک پہنچاتی ہے۔"
زینب کا جواب: "میں ٹھیک ہوں یاسر۔ تمہاری خوشی میرے لیے دعا ہے۔ تمہیں بھی خوش رہنا چاہیے۔"
"نئی زندگی ایسی تھی جیسے کوئی سنہری پنجرے میں قید ہو۔ ہر سہولت موجود تھی، مگر آزادی نہیں تھی۔ اور دل ہمیشہ پرانے گھر کی یاد میں تڑپتا رہتا تھا۔"
10

دوسرا موقع - یاسر کی شادی

تاریخ: 15 فروری 2017, بدھ
وجہ: زینب کے بار بار کے اصرار پر
جذبات: ذمہ داری، مگر محبت نہیں

زینب کے مسلسل اصرار پر یاسر نے سارہ سے شادی کی۔ سارہ ایک اچھے گھرانے کی لڑکی تھی، مگر یاسر کا دل زینب کے ساتھ تھا۔

زینب (فون پر): "یاسر، تمہیں اپنی زندگی آگے بڑھانی چاہیے۔ تمہیں کسی اچھی لڑکی سے شادی کرنی چاہیے۔ تمہاری خوشی میرے لیے بہت اہم ہے۔"
یاسر (تڑپ کے ساتھ): "زینب... تمہیں پتا ہے میں تمہارے بغیر کسی اور کے ساتھ کیسے رہ سکتا ہوں؟ تم میرے دل میں ہمیشہ رہو گی۔"
زینب (ڈانٹتے ہوئے): "نہیں یاسر! تمہیں یہ سوچنا چاہیے۔ تمہاری اپنی زندگی ہے۔ مجھے خوش رکھنے کے لیے اپنی زندگی برباد مت کرو۔"

شادی کے دن یاسر کی آنکھیں نم تھیں۔ جب سارہ نے جہیز میں red carpet پر قدم رکھا، یاسر نے زینب کی طرف دیکھا جو دور کھڑی سب دیکھ رہی تھی۔

سارہ (شرماتے ہوئے): "یاسر... میں تمہیں خوش رکھوں گی۔ تمہاری ہر خواہش پوری کروں گی۔"
یاسر (مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ): "شکریہ سارہ... ہم مل کر ایک اچھی زندگی گزارین گے۔"

رات کو جب سب سونے چلے گئے، یاسر نے اپنے کمرے کی الماری سے زینب کی تصویر نکالی۔ آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔

یاسر (تصویر سے بات کرتے ہوئے): "زینب... تمہاری خاطر میں نے یہ قدم اٹھایا ہے۔ تمہاری خوشی میرے لیے سب کچھ ہے۔"
"یاسر کی شادی ایسی تھی جیسے کوئی اپنے ہی ہاتھوں اپنے خوابوں کو دفنا رہا ہو۔ ہر رشتہ نبھانا ضروری تھا، مگر دل کسی اور کے ساتھ دھڑک رہا تھا۔ اور یوں زندگی ایک مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ گزرنے لگی۔"
11

پہلا صدمہ - برین ہیمرج

تاریخ: 15 مارچ 2018, جمعرات
وقت: رات 2:30 بجے
مقام: ڈیفنس والا گھر
حالت: اچانک طبی بحران

رات کے 2 بجے تھے۔ زینب کی نیند اچانک ڈاکٹر احمد کے چیخنے کی آواز سے ٹوٹی۔

ڈاکٹر احمد (چیخ کر): "زینب! میرا سر... میرا سر پھٹ رہا ہے... میں نہیں دیکھ پا رہا..."
زینب (گھبرا کر): "احمد! تمہیں کیا ہوا؟ اوہ خدا... تمہارا چہرہ تو بے رونق ہو گیا ہے۔ میں ابھی ایمبولنس کو فون کرتی ہوں!"

زینب کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ اس نے فون اٹھایا اور ایمبولنس کو کال کی۔ ساتھ ہی اسے یاسر کا خیال آیا۔

زینب (یاسر کو فون کرتے ہوئے): "یاسر... مجھے تمہاری ضرورت ہے۔ احمد کی حالت بہت خراب ہے۔ میں تنہا نہیں سنبھال سکتی..."
یاسر (فوراً): "زینب! گھبراؤ مت۔ میں 10 منٹ میں پہنچتا ہوں۔ تم احمد کو آرام سے لٹاؤ۔"

یاسر 8 منٹ میں پہنچ گیا۔ ایمبولنس آئی اور ڈاکٹر احمد کو ہسپتال لے گئی۔

ڈاکٹر (سنجیدگی سے): "یہ برین ہیمرج ہے۔ حالت سنگین ہے۔ ہمیں فوراً آپریشن تھیٹر میں لے جانا ہوگا۔"
زینب (روتے ہوئے): "یاسر... اگر احمد کا کچھ ہو گیا تو... وہ میرے ساتھ ہمیشہ اچھے رہے ہیں۔"
یاسر (تسلی دیتے ہوئے): "سب ٹھیک ہو جائے گا زینب۔ تم مضبوط رہو۔ احمد کو تمہاری ضرورت ہے۔"
"پہلا برین ہیمرج ایسا تھا جیسے زندگی نے اچانک موڑ لے لیا ہو۔ زینب کے لیے ڈاکٹر احمد صرف شوہر نہیں، ایک ذمہ داری بن گئے تھے۔ اور یاسر نے اپنی محبت کو قربانی میں بدل دیا۔"
12

معذوری کا دوسرا حملہ

تاریخ: 20 جون 2019, جمعرات
وقت: دوپہر 3:00 بجے
مقام: گھر کے ڈرائنگ روم میں
نتائج: wheelchair-bound زندگی

ڈاکٹر احمد معمول کی فزیو تھیراپی کر رہے تھے کہ اچانک ان کا توازن بگڑ گیا۔

ڈاکٹر احمد (گھبرا کر): "زینب... میرا دایاں حصہ... میں محسوس نہیں کر پا رہا... میرا بازو... میرا پیر..."
زینب (فوراً رد عمل): "ارے خدا! احمد گر مت جانا! میں تمہیں سنبھالتی ہوں۔ نوکر! جلدی ڈاکٹر کو بلاؤ!"

اس بار حالت پہلے سے زیادہ سنگین تھی۔ ڈاکٹر احمد کا دایاں حصہ مفلوج ہو گیا۔

نیورولوجسٹ (مایوسی سے): "مسز احمد، آپ کے شوہر کا دایاں حصہ permanent damage کا شکار ہو گیا ہے۔ وہ wheelchair پر dependent رہیں گے۔"
زینب (ٹूٹتی ہوئی آواز میں): "لیکن ڈاکٹر صاحب... کیا کوئی علاج نہیں ہے؟ وہ تو ابھی جوان ہیں..."
نیورولوجسٹ (ہلکے سے): "ہم supportive care دے سکتے ہیں، مگر recovery کے chances بہت کم ہیں۔"

زینب نے یاسر کو فون کیا۔ آواز میں تھکاوٹ اور مایوسی تھی۔

زینب (تھکی ہوئی آواز میں): "یاسر... احمد کی حالت مزید خراب ہو گئی ہے۔ وہ wheelchair کے محتاج ہو گئے ہیں۔ میں کیسے سنبھالوں گی سب کچھ؟"
یاسر (مضبوطی سے): "زینب، تم تنہا نہیں ہو۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ ہم مل کر اس مشکل وقت کا سامنا کریں گے۔"
"دوسرا برین ہیمرج ایسا تھا جیسے زندگی نے اپنی ساری سختیاں یکجا کر دی ہوں۔ زینب کے کندھوں پر ذمہ داریوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، مگر اس نے ہمت نہیں ہاری۔ اور یاسر کی محبت اس کی طاقت بن گئی۔"
13

آخری الوداع - fatal حملہ

تاریخ: 10 جنوری 2020, جمعہ
وقت: صبح 6:00 بجے
مقام: ہسپتال کا ICU
نتائج: مستقل separation

زینب نے پوری رات ڈاکٹر احمد کے بستر کے پاس بیٹھ کر گزاری تھی۔ صبح کی پہلی کرن نے کمرے میں داخل ہونا تھا کہ اچانک مانیٹر کی آوازوں نے خاموشی توڑی۔

ڈاکٹر احمد (آخری بار): "زینب... تم... تم بہت اچھی ہو... مجھے معاف کرنا... میں تمہیں خوش نہیں رکھ سکا..."
زینب (چیخ کر): "احمد! نہیں... تمہیں کچھ نہیں ہوگا! ڈاکٹر! جلدی آئیں! میرا شوہر..."

ICU کے ڈاکٹرز دوڑے آئے، مگر سب بہت دیر ہو چکی تھی۔

ہیڈ ڈاکٹر (دکھ کے ساتھ): "مسز احمد... ہم نے اپنی پوری کوشش کی۔ massive برین ہیمرج تھا۔ بہت زیادہ خون بہہ گیا۔"
زینب (بے ہوش ہوتے ہوئے): "نہیں... یہ ممکن نہیں... احمد... تم نے مجھے اکیلا چھوڑ دیا..."

یاسر ہسپتال پہنچا تو زینب بے ہوش پڑی تھی۔ ڈاکٹر احمد کے جسم پر سفید چادر تھی۔

یاسر (روندھی آواز میں): "زینب... میں آ گیا ہوں۔ تم تنہا نہیں ہو۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔"
زینب (ہوش میں آ کر): "یاسر... وہ چلے گئے۔ میں نے انہیں بچانے کی پوری کوشش کی... مگر..."
یاسر (گلے لگا کر): "تم نے بہت بہادری دکھائی زینب۔ تم نے اپنی ساری ذمہ داریاں نبھائیں۔ اب تم آرام کرو۔"
"تیسرا برین ہیمرج ایسا تھا جیسے زندگی نے اپنا آخری وار کر دیا ہو۔ ڈاکٹر احمد کی موت نے زینب کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ اور یاسر کے لیے محبت کی نئی تعریف لکھ دی۔"
14

خاموشی کا طوفان - غم اور تنہائی

دورانیہ: جنوری 2020 - دسمبر 2021
حالت: شدید ڈپریشن
نتائج: جسمانی اور ذہنی تباہی

ڈاکٹر احمد کے انتقال کے بعد زینب نے خود کو کمرے میں بند کر لیا۔ وہ دن بھر کھڑکی سے باہر دیکھتی رہتی، آنسو بہاتی رہتی۔

زینب (اپنے آپ سے): "احمد... تم نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟ میں تنہا کیسے جیؤں گی؟ تمہاری ہر چیز تمہاری یاد دلاتی ہے..."

یاسر روزانہ زینب سے ملنے آتا۔ وہ اسے کھانا کھلاتا، باتوں میں مصروف رکھتا۔

یاسر (نرمی سے): "زینب، تمہیں کھانا کھانا چاہیے۔ تم دن بدن کمزور ہوتی جا رہی ہو۔ احمد تمہیں یوں دیکھتے تو..."
زینب (بے حسی سے): "یاسر... مجھے کیوں زندہ رکھا جا رہا ہے؟ میری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ میں تو صرف ایک بوجھ ہوں۔"
یاسر (ڈانٹتے ہوئے): "ایسا مت کہو زینب! تمہاری زندگی بہت قیمتی ہے۔ تمہیں زندہ رہنا ہے۔ تمہارے خواب ہیں، تمہاری خواہشات ہیں۔"

ایک دن زینب کی حالت اتنی خراب ہو گئی کہ یاسر نے اسے ماہر نفسیات کے پاس لے جانے کا فیصلہ کیا۔

ماہر نفسیات (نرمی سے): "زینب، آپ severe depression کا شکار ہیں۔ یہ normal ہے جب کوئی قریبی شخص چلا جائے۔ ہم مل کر اس پر قابو پا سکتے ہیں۔"
زینب (بے یقینی سے): "ڈاکٹر صاحب... کیا واقعی میں ٹھیک ہو سکتی ہوں؟ میرا تو لگتا ہے میں ہمیشہ کے لیے ٹوٹ چکی ہوں۔"
"غم اور تنہائی ایسے تھے جیسے کوئی اندھیرے کنویں میں گر گیا ہو۔ زینب کی ہر سانس درد بن گئی، ہر لمحہ عذاب۔ مگر یاسر کی محبت اس اندھیرے میں ایک روشنی بن کر آئی۔"
15

جسم کی بغاوت - بیماری کا آغاز

تاریخ: مارچ 2022 کا آغاز
علامات: مسلسل تھکاوٹ، وزن میں کمی
وجہ: prolonged depression

دو سال کے مسلسل غم اور ڈپریشن نے زینب کے جسم پر منفی اثرات ڈالنا شروع کر دیے تھے۔

زینب (کمزور آواز میں): "یاسر... مجھے آج پھر چکر آ رہے ہیں۔ میں اٹھنے کے قابل نہیں ہوں۔"
یاسر (پریشان ہو کر): "زینب! تمہارا چہرہ تو بالکل زرد ہو گیا ہے۔ میں تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے کر جا رہا ہوں۔"

میڈیکل چیک اپ کے نتائج نے سب کو حیران کر دیا۔

ڈاکٹر (سنجیدگی سے): "زینب کا immune system بالکل کمزور ہو چکا ہے۔ prolonged depression نے ان کے جسم کے دفاعی نظام کو تباہ کر دیا ہے۔"
یاسر (گھبرا کر): "لیکن ڈاکٹر صاحب... یہ کیسے ممکن ہے؟ وہ تو صرف اداس رہتی ہیں۔"
ڈاکٹر (واضح کرتے ہوئے): "دماغ اور جسم کا گہرا تعلق ہے۔ مسلسل ذہنی دباؤ جسمانی صحت کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔ انہیں فوراً ہسپتال میں داخل کرنا ہوگا۔"
زینب (مایوسی سے): "یاسر... میں تمہارا بوجھ بن گئی ہوں۔ تمہاری اپنی زندگی ہے، اپنی بیوی ہے۔ تم مجھے چھوڑ دو۔"
یاسر (غصے سے): "خاموش زینب! تم کبھی میرا بوجھ نہیں بن سکتیں۔ تم میری زندگی کا سب سے قیمتی تحفہ ہو۔ میں تمہیں کبھی تنہا نہیں چھوڑوں گا۔"
"بیماری کا آغاز ایسا تھا جیسے جسم نے ذہن کے درد کو اپنے اندر جذب کر لیا ہو۔ زینب کی ہر بیماری اس کے دکھ کی عکاس تھی۔ اور یاسر کی محبت اس درد کا واحد علاج بن گئی۔"
16

سفید دیواریں - ہسپتال کا سفر

تاریخ: 15 جنوری 2023, اتوار
مقام: ایگلز ہسپتال، ICU وارڈ
حالت: critical condition
ڈاکٹرز: 5 specialists کی ٹیم

زینب کو emergency basis پر ہسپتال لے جایا گیا۔ اس کا وزن 40 کلو تک گر چکا تھا اور وہ مسلسل بے ہوشی کے دورے میں تھی۔

ایمرجنسی ڈاکٹر (فوراً): "فوراً ICU میں لے جاؤ! IV fluids لگاؤ۔ BP 80/50 ہے، یہ بہت خطرناک ہے!"
یاسر (گھبراہٹ میں): "ڈاکٹر صاحب! براہ کرم انہیں بچا لیجیے۔ وہ میری... وہ میری بہت عزیز ہیں۔"

ہسپتال کی سفید دیواریں، بے رحم لائٹس، اور مسلسل بیپ کی آوازیں... سب کچھ خوفزدہ کر رہا تھا۔

سینئر ڈاکٹر (رپورٹ دیتے ہوئے): "میرے پاس اچھی خبریں نہیں ہیں۔ زینب کا immune system مکمل طور پر fail ہو چکا ہے۔ ان کے organs gradually fail ہو رہے ہیں۔"
یاسر (ہچکیاں لیتے ہوئے): "مطلب... مطلب کیا ہے ڈاکٹر صاحب؟ کیا وہ...؟"
سینئر ڈاکٹر (ہلکے سے): "ہم supportive care دے رہے ہیں، مگر prognosis اچھا نہیں ہے۔ depression نے ان کے جسم کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔"

یاسر نے زینب کے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے اپنے آپ کو مضبوط کیا۔ زینب کی آنکھیں بند تھیں، چہرہ بالکل بے رونق۔

یاسر (زینب کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے): "زینب... میں حاضر ہوں۔ تمہارے ساتھ ہوں۔ تمہیں ٹھیک ہونا ہے۔ ہمارے خوابوں کو پورا کرنا ہے۔"
زینب (ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ): "یاسر... تم آ گئے۔ میں نے تمہارا انتظار کیا۔"
"ہسپتال کی سفید دیواریں گواہ بنیں ایک ایسی محبت کی جو موت سے بھی ٹकراتی تھی۔ ہر ڈ्रپ کے ساتھ زینب کی زندگی ٹپک رہی تھی، مگر یاسر کی امید کبھی ختم نہیں ہوئی۔"
17

ہمیشہ کے لیے الوداع - آخری باتیں

تاریخ: 10 مارچ 2023, جمعہ
وقت: رات 11:00 بجے
ماحول: پر سکون، چاندنی رات
جذبات: acceptance اور peace

زینب نے اچانک آنکھیں کھولیں۔ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی، جیسے وہ سب کچھ جانتی ہو۔

زینب (صاف آواز میں): "یاسر... تمہیں نیند آ رہی ہے؟ تم نے پوری رات جاگ کر میری دیکھ بھال کی ہے۔"
یاسر (حیران ہو کر): "زینب! تمہاری آواز... تم بہتر محسوس کر رہی ہو! میں ڈاکٹر کو بلاتا ہوں۔"
زینب (ہاتھ پکڑ کر): "نہیں یاسر... ابھی نہیں۔ تمہارے ساتھ کچھ私 بات کرنی ہے۔"

زینب کی آواز میں ایک عجیب سکون تھا۔ وہ یاسر کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔

زینب (پیار سے): "یاسر... تم نے میری زندگی کو خوبصورت بنایا۔ تمہاری محبت نے مجھے زندہ رکھا۔ اب میں جانتی ہوں کہ میرا وقت آ گیا ہے۔"
یاسر (روتے ہوئے): "نہیں زینب! ایسا مت کہو۔ تم ٹھیک ہو جاؤ گی۔ ہم مل کر سب کچھ کرین گے۔"
زینب (پرسکون): "یاسر... میری ایک آخری خواہش ہے۔ تم مجھے وعدہ کرو کہ تم خوش رہو گے۔ تم اپنی زندگی کو مکمل جیو گے۔"
یاسر (ہچکیاں لیتے ہوئے): "لیکن زینب... تمہارے بغیر... میں کیسے خوش رہ سکتا ہوں؟"
زینب (مسکراتے ہوئے): "تمہاری خوشی میں ہی میری خوشی ہے۔ تمہیں میرے بعد بھی مسکرانا ہے۔ یہ میری آخری خواہش ہے۔"

زینب نے یاسر کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔ دونوں کی آنکھیں بند تھیں، جیسے وہ ایک دوسرے کے دل کی دھڑکن سن رہے ہوں۔

"آخری ملاقات ایسی تھی جیسے دو روحیں ایک دوسرے کو الوداع کہہ رہی ہوں۔ ہر لفظ میں محبت تھی، ہر نظر میں وعدہ۔ اور پھر زندگی نے موت کو بھی شکست دے دی۔"
18

امن کی نیند - آخری سفر

تاریخ: 15 مارچ 2023, بدھ
وقت: صبح 5:45 بجے
ماحول: پر سکون صبح، پرندوں کی چہچہاہٹ
کیفیات: pain-free departure

صبح کی پہلی کرن کمرے میں داخل ہو رہی تھی۔ پرندے چہچہا رہے تھے۔ یاسر زینب کے بستر کے پاس بیٹھا اس کا ہاتھ تھامے ہوئے تھا۔

یاسر (نرمی سے): "زینب... صبح ہو گئی ہے۔ تمہاری پسندیدہ چڑیا چہچہا رہی ہے۔ سنو..."

زینب نے آنکھیں کھولیں۔ اس کے چہرے پر ایک پر سکون مسکراہٹ تھی۔

زینب (بہت ہلکی آواز میں): "یاسر... میں چلی جا رہی ہوں۔ تمہیں ہمیشہ یاد رکھوں گی۔ تمہارا شکریہ... سب کچھ کے لیے۔"
یاسر (گھٹی ہوئی آواز میں): "زینب... تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔"

زینب نے آخری بار یاسر کی طرف دیکھا۔ آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی، جیسے وہ کچھ کہنا چاہتی ہو۔ پھر اس کی آنکھیں بند ہو گئیں۔

یاسر (چیخ کر): "زینب! میری زینب! ڈاکٹر! جلدی آئیں... براہ کرم!"

ڈاکٹرز دوڑے آئے۔ انہوں نے چیک کیا اور سر ہلا دیا۔

ڈاکٹر (دکھ کے ساتھ): "یاسر صاحب... وہ چلی گئی ہیں۔ بہت پر سکون۔ کوئی درد نہیں تھا۔"
یاسر (بے ہوش ہوتے ہوئے): "نہیں... یہ ممکن نہیں... زینب... تم مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتیں..."

کمرے میں سناٹا چھا گیا۔ صبح کی روشنی زینب کے چہرے پر پڑ رہی تھی، جس پر ایک مسکراہٹ جمی ہوئی تھی۔

"انتقال ایسا تھا جیسے کوئی پرندہ آزاد ہو گیا ہو۔ زینب کی روح نے اپنے پنجرے سے پرواز کی۔ اور یاسر کے دل میں ایک ایسی جگہ بن گئی جو ہمیشہ زندہ رہے گی۔"
19

خاموش چیخیں - سوگ کے دن

دورانیہ: مارچ 2023 - دسمبر 2023
مقام: یاسر کا گھر
حالت: شدید depression
مددگار: سارہ (بیوی)

یاسر نے خود کو کمرے میں بند کر لیا۔ وہ دن بھر زینب کی تصویریں دیکھتا، اس کے خطوط پڑھتا، اور روتا رہتا۔

سارہ (دروازے پر): "یاسر... براہ کمار دروازہ کھولو۔ تم نے تین دن سے کچھ نہیں کھایا۔ تم خود کو مار ڈالو گے؟"
یاسر (غصے سے): "مجھے تنہا چھوڑ دو! میں کسی سے بات نہیں کرنا چاہتا۔ زینب کے بغیر میری زندگی بے معنی ہے۔"

سارہ نے صبر سے کام لیا۔ وہ روزانہ دروازے پر کھانا رکھتی، پانی رکھتی۔

سارہ (نرمی سے): "یاسر، میں تمہاری تکلیف سمجھ سکتی ہوں۔ مگر زینب تمہیں یوں دیکھتیں تو وہ بہت دکھی ہوتیں۔"

ایک رات یاسر نے خواب میں زینب کو دیکھا۔

زینب (خواب میں): "یاسر... تم نے وعدہ کیا تھا نا کہ تم خوش رہو گے؟ یہ تم کیا کر رہے ہو؟ تمہاری بیوی تمہاری پرواہ کرتی ہے، تمہیں اس کا خیال رکھنا چاہیے۔"
یاسر (خواب میں روتے ہوئے): "زینب... تم واپس آ جاؤ۔ میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا۔"
زینب (مسکراتے ہوئے): "میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں یاسر۔ تمہارے دل میں، تمہاری یادوں میں۔ اب جاؤ، اور وہ کرو جو تمہیں کرنا چاہیے۔"

صبح یاسر نے دروازہ کھولا۔ اس کی آنکھیں سرخ تھیں، مچ چہرے پر عزم تھा۔

یاسر (سارہ سے): "تمہارا شکریہ سارہ... تم نے میرا ساتھ دیا۔ اب میں زینب کے خواب کو پورا کرنے جا رہا ہوں۔"
"سوگ کے دن ایسے تھے جیسے کوئی طوفان کے بعد کی صفائی کر رہا ہو۔ یاسر کے دل کے ٹکڑے جوڑے جا رہے تھے، اور ہر ٹکڑے پر زینب کی یادیں ثبت تھیں۔"
20

خوابوں کی تعبیر - نیا آغاز

تاریخ: 15 مارچ 2024, جمعہ
مقام: "زینب میموریل لائبریری"
واقعہ: لائبریری کا افتتاح
مہمان: 200 سے زائد لوگ

یاسر نے زینب کے خواب کو حقیقت کا روپ دیا۔ اس نے ایک خوبصورت لائبریری قائم کی، جہاں غریب بچے مفت پڑھ سکتے تھے۔

یاسر (افتتاحی تقریب میں): "آج کا دن زینب کے نام ہے۔ ان کا خواب تھا کہ ہر بچے تک کتابیں پہنچیں۔ آج وہ خواب حقیقت بن رہا ہے۔"

تقریب کے بعد یاسر زینب کی قبر پر گیا۔ ہاتھوں میں پھولوں کا گلدستہ تھا۔

یاسر (قبر سے بات کرتے ہوئے): "زینب... دیکھو تمہارا خواب پورا ہوا۔ آج سینکڑوں بچے تمہاری وجہ سے علم حاصل کر رہے ہیں۔ تمہاری یادیں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔"
یاسر (وعدہ کرتے ہوئے): "تم نے کہا تھا نا کہ میں خوش رہوں؟ میں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہاری خاطر میں خوش رہوں گا۔ تمہاری محبت ہمیشہ میرے ساتھ رہے گی۔"

شام کو یاسر گھر واپس آیا۔ سارہ دروازے پر کھڑی مسکرا رہی تھی۔

سارہ (خوشی سے): "تمہاری آنکھوں میں آج چمک واپس آ گئی ہے۔ زینب ضرور تم پر فخر کر رہی ہوں گی۔"
یاسر (مسکراتے ہوئے): "شکریہ سارہ... تمہارے سہارے کے بغیر میں یہ سب نہیں کر پاتا۔ اب ہم مل کر آگے بڑھیں گے۔"
"اور یوں یاسر نے سیکھا کہ سچی محبت موت سے بڑی ہوتی ہے۔ زینب کی روح ہمیشہ اس کے ساتھ رہی، اس کے خوابوں میں، اس کی یادیں بن کر۔ محبت کبھی مرتی نہیں، وہ صرف اپنا روپ بدلتی ہے۔ اور یاسر کی مسکراہٹ میں زینب ہمیشہ زندہ رہی۔"
آخری بات (مصنف کی طرف سے): "زینب اور یاسر کی کہانی محض ایک افسانہ نہیں، یہ ہر اس شخص کی کہانی ہے جو محبت کرتا ہے، قربانی دیتا ہے، اور پھر اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ محبت ہمیشہ زندہ رہتی ہے، بس ہمیں اسے محسوس کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔"

Share this

Related Posts

Prev Post
« next
Next Post
PREVIOUS »