غزل 1: شاید مجھے کسی سے محبت نہیں ہوئی
شاید مجھے کسی سے محبت نہیں ہوئی
لیکن یقین سب کو دلاتا رہا ہوں میں
دنیا کے ہر رستے سے خفا ہوا
پھر بھی اپنا راستہ خود چنتا رہا ہوں میں
لیکن یقین سب کو دلاتا رہا ہوں میں
دنیا کے ہر رستے سے خفا ہوا
پھر بھی اپنا راستہ خود چنتا رہا ہوں میں
یہ غزل جون ایلیا کے اُس احساس کو بیان کرتی ہے کہ محبت میں ناکامی کے باوجود انسان اپنے آپ پر بھروسہ رکھتا ہے اور اپنے راستے پر قائم رہتا ہے۔
غزل 2: ہم تو جیسے وہاں کے تھے ہی نہیں
ہم تو جیسے وہاں کے تھے ہی نہیں
بے اماں تھے، اماں کے تھے ہی نہیں
خود کو دنیا میں کھویا پایا
اور سب کچھ اپنا لگتا رہا نہیں
بے اماں تھے، اماں کے تھے ہی نہیں
خود کو دنیا میں کھویا پایا
اور سب کچھ اپنا لگتا رہا نہیں
یہ غزل انسان کی دنیا سے بے رخی اور داخلی تنہائی کو ظاہر کرتی ہے۔
غزل 3: برتی ہے بے رخی میں نے
برتی ہے بے رخی میں نے
تجھ سے محبت کی ہے
تجھے ڈھونڈتا رہا ہر راستے میں
پر جواب وہ کبھی ملا ہی نہیں
تجھ سے محبت کی ہے
تجھے ڈھونڈتا رہا ہر راستے میں
پر جواب وہ کبھی ملا ہی نہیں
یہ غزل عشق میں نامکمل اور یکطرفہ محبت کو ظاہر کرتی ہے۔
غزل 4: وہ جو تم تھے
وہ جو تم تھے، وہ جو ہم تھے
وہ جو تم تھے، وہ جو ہم تھے
یادوں کی گہرائیوں میں کھو گئے
اور لمحے خاموشی سے گزر گئے
وہ جو تم تھے، وہ جو ہم تھے
یادوں کی گہرائیوں میں کھو گئے
اور لمحے خاموشی سے گزر گئے
یہ غزل پرانی محبتوں اور یادوں کی تلخی کو بیان کرتی ہے۔
غزل 5: ہر شخص سے بے نیاز ہو جا
ہر شخص سے بے نیاز ہو جا
پھر سب سے یہ کہہ کہ میں خدا ہوں
درد کے ہر لمحے میں تنہا رہنا سیکھ
تب ہی خود کو پا سکے گا تو
پھر سب سے یہ کہہ کہ میں خدا ہوں
درد کے ہر لمحے میں تنہا رہنا سیکھ
تب ہی خود کو پا سکے گا تو
یہ غزل خود اعتمادی، تنہائی، اور خود شناسی کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔
EmoticonEmoticon