Showing posts with label Novels. Show all posts
Showing posts with label Novels. Show all posts

سوہنی ماہیوال مکمل کہانی✨✨✨💞✨✨✨

سوہنی اور ماہی وال - مکمل کہانی

سہانی اور ماہی وال

محبت کی لازوال داستان

تاریخی اور جغرافیائی پس منظر

سہانی اور ماہی وال کی یہ عشقیہ داستان سترہویں صدی کے پنجاب کے خطے میں پروان چڑھی، جب مغلیہ سلطنت اپنے عروج پر تھی اور پنجاب کی ثقافت و تہذیب اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ فروغ پا رہی تھی۔

یہ واقعہ موجودہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع گوجرانوالہ کے قریب دریائے چناب کے کنارے آباد ایک چھوٹے سے گاؤں "پنڈ بھگتاں" میں پیش آیا۔ اس وقت کا پنجاب کا معاشرہ قبائلی روایات، ذات پات کے امتیازات اور خاندانی شرافت پر مبنی تھا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب لوگ قدرتی وسائل پر انحصار کرتے تھے، دریا ان کی زندگی کا مرکز تھا، اور ہر فصل کی کٹائی کے بعد میلے ٹھیلے منعقد ہوتے تھے جہاں محبت کے بیج پنپتے تھے۔

مرکزی کردار

سہانی

  • کمہار خاندان سے تعلق
  • عمر: سترہ سال
  • مٹی کے برتن بنانے کی ماہر
  • نہایت خوبصورت اور ہنرمند
  • گاؤں کی سب سے حسین لڑکی
  • قد: پانچ فٹ پانچ انچ

ماہی وال

  • مچھیرے خاندان سے تعلق
  • عمر: بائیس سال
  • مچھلیاں بیچ کر گزارا
  • محنتی اور ایماندار
  • خوش شکل اور ملنسار
  • قد: پانچ فٹ آٹھ انچ

پہلی ملاقات

ایک صبح کی بات ہے، سہانی اپنے گھر کے آنگن میں مٹی کے برتن بنا رہی تھی۔ اچانک اس کے کانوں میں ایک میٹھی آواز پڑی:

"مچھلی والا! تازہ مچھلیاں لے آیا!"

سہانی نے دروازے سے جھانک کر دیکھا تو ایک خوبصورت نوجوان ٹوکری لیے کھڑا تھا۔ اس کی آنکھوں میں چمک تھی اور چہرے پر مسکراہٹ۔

سہانی: "ماہی والا، مچھلیوں کے کیسے دام ہیں؟"
ماہی وال: "آپ کے لیے خاص دام ہیں بی بی!"

یہ پہلی ملاقات تھی جو دونوں کے دلوں میں محبت کا بیج بو گئی۔ نظروں کے تبادلے نے ایک ایسا رشتہ قائم کر دیا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مضبوط ہوتا چلا گیا۔

محبت کا ارتقاء

اس پہلی ملاقات کے بعد ماہی وال ہر روز سہانی کے گاؤں آنے لگا۔ محبت کا سفر مرحلہ وار پروان چڑھا:

پہلا ہفتہ
نظروں کا تبادلہ
دوسرا ہفتہ
مسکراہٹوں کا تبادلہ
تیسرا ہفتہ
چھوٹی چھوٹی باتیں
چوتھا ہفتہ
ناموں کا تبادلہ
پانچواں ہفتہ
گھر کے حالات بتائے
چھٹا ہفتہ
دل کی بھڑاس نکلی
ساتواں ہفتہ
محبت کا اعلان ہو گیا

ہر ملاقات میں محبت گہری ہوتی گئی، ہر نظر میں پیار بڑھتا گیا، ہر بات میں خلوص نمایاں ہوتا گیا۔ وہ دریا کے کنارے بیٹھ کر اپنے خواب سناتے، اپنی امیدیں بیان کرتے، اور ایک دوسرے کے دلوں میں گھر کرتے چلے گئے۔

خاندانی مخالفت

جیسے جیسے سہانی اور ماہی وال کی ملاقاتیں باقاعدہ ہوتی گئیں، گاؤں میں چرچے پھیلنے لگے۔ سہانی کے بھائیوں کو شک ہوا اور انہوں نے چھپ کر جاسوسی شروع کی۔

"سہانی! تمہاری یہ حرکتیں ناقابل معافی ہیں! ہماری بہن ایک غریب ماہی والے کے ساتھ؟ کبھی نہیں!"

سخت اقدامات:

  • سہانی کو گھر میں قید کر دیا گیا
  • کمرے کی کھڑکیاں بند کر دی گئیں
  • دروازے پر تالے لگا دیے گئے
  • ماہی وال پر گاؤں میں آنے کی پابندی
  • دھمکیاں اور دباؤ

سہانی کے بھائیوں نے اسے ڈانٹا، سمجھایا، حتیٰ کہ دھمکیاں بھی دیں۔ لیکن سہانی کے دل میں تو ماہی وال کے لیے محبت کے سوا کچھ نہ تھا۔

دریا کنارے ترکیب

قید و بند کی صعوبتوں کے باوجود سہانی نے ہمت نہ ہاری۔ اس نے ایک ترکیب سوچی:

"میں روزانہ دریا کنارے ایک مخصوص جگہ پر - ایک بڑے پتھر کے پیچھے - ایک سرخ مٹی کا گھڑا رکھ دے گی جس پر اس نے پھول بنائے ہوں گے۔ جب ماہی وال وہ گھڑا دیکھے گا تو سمجھ جائے گا کہ سہانی اس کا انتظار کر رہی ہے اور وہ دریا کے کنارے آ کر اس سے مل سکتا ہے۔"

ترکیب کا طریقہ کار:

  • دریا کے کنارے ایک خاص جگہ منتخب کی گئی
  • بڑے پتھر کے پیچھے گھڑا رکھنے کا مقام
  • سرخ مٹی کا گھڑا، پھولوں سے سجاوٹ
  • گھڑا دیکھ کر ملاقات کا اشارہ
  • سہانی صبح سویرے گھڑا رکھتی
  • ماہی وال دوپہر کو آتا اور گھڑا دیکھتا

یہ ترکیب کامیاب رہی اور دونوں اس طریقے سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ سلسلہ مہینوں تک چلتا رہا، ہر ملاقات میں ان کی محبت گہری ہوتی گئی۔

طوفانی رات کا المیہ

یہ وہ قیامت خیز رات تھی جو تاریخ 15 جولائی 1650 کو آئی۔ موسم انتہائی خراب تھا:

موسمی حالات
رات آٹھ بجے، ہوا کی رفتار 60 کلومیٹر فی گھنٹہ، تیز بارش، مسلسل بجلی چمکنا
دریا کا حال
پانی کی سطح 10 فٹ بلند، تیز اور خطرناک بہاؤ، 3-4 فٹ اونچی لہریں

ماہی وال نے طوفان کی پروا نہ کرتے ہوئے سہانی سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ وہ رات سات بجے اپنے گھر سے نکلا، جنگل کے راستے سے ہوتا ہوا دریا کنارے پہنچا۔

"سہانی! میں آ رہا ہوں... بچاؤ!"

اس نے دریا پار کرنے کی کوشش کی مگر تیز بہاؤ نے اسے بہا لیا۔ ادھر سہانی بے چین ہو کر رات ساڑھے آٹھ بجے دریا کنارے پہنچی۔ اس نے دریا کو طغیانی پر دیکھا، ماہی وال کو کہیں نہ پایا، پھر اسے دریا کے کنارے ماہی وال کی چپل ملی۔ چپل دیکھتے ہی اس کا دل ٹوٹ گیا۔

"ماہی وال! تم نے وعدہ کیا تھا ہمیشہ ساتھ رہو گے، تم نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟ اگر تم نہیں ہو تو میں بھی نہیں رہ سکتی۔ موت ہمیں الگ نہیں کر سکتی، ہم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ساتھ رہیں گے!"

یہ کہہ کر اس نے دریا میں چھلانگ لگا دی اور اپنے محبوب کے ساتھ ہمیشہ کے لیے جا ملی۔

داستان کا ورثہ

صبح ہوئی تو گاؤں والوں کو پتہ چلا کہ کیا ہوا ہے۔ سب حیران رہ گئے، ہر کسی نے ان کی محبت کو سلام کیا، لوگوں نے ان کی قربانی کو سراہا۔

خاندان کا ردعمل
سہانی کے بھائیوں کو افسوس ہوا، ماں باپ نے روتے ہوئے معافی مانگی
یادگاریں
دریا کنارے چبوترہ بنایا گیا، دونوں کی یادیں تازہ رکھی گئیں
لوک ادب میں مقام
نسل در نسل منتقل، پنجابی لوک گیتوں میں ڈھلتی رہی
"سہانی ماہی وال دی، درد بھری کہانی اے
دو دلاں دی محبت نوں، ویراں نے ویرانی اے"
سبق اور ورثہ:
یہ کہانی نہ صرف محبت کی لازوال داستان ہے بلکہ سماجی امتیازات کے خلاف ایک زبردست احتجاج بھی ہے، جو ہمیں سکھاتی ہے کہ سچی محبت ہر رکاوٹ کو توڑ دیتی ہے، قربانیاں محبت کو امر کر دیتی ہیں، اور موت کے بعد بھی محبت زندہ رہتی ہے۔

سہانی اور ماہی وال کی محبت آج بھی دریا کی لہروں میں بسی ہوئی ہے، اور ان کی داستان پنجابی ثقافت کا ایک لازوال حصہ بن چکی ہے۔

سہانی اور ماہی وال

محبت کی لازوال داستان - پنجابی لوک ادب کا شاہکار

© 2025 - مکمل تفصیلی کہانی

محبت کا سفر - عارف کی مکمل کہانی...✨✨✨💞💞✨✨✨

محبت کا سفر - عارف کی مکمل کہانی

محبت کا سفر

عارف کی مکمل کہانی - درد سے نشاۃ ثانیہ تک

تعارف

یہ کہانی ہے عارف کی، ایک ایسے نوجوان کی داستان جو محبت کے درد سے ٹوٹ کر بکھر گیا تھا، مگر پھر اپنے ٹوٹے ہوئے ٹکڑوں سے ایک نئی زندگی تعمیر کی۔ یہ صرف ایک محبت کی کہانی نہیں، بلکہ انسان کی اندرونی مضبوطی، ہمت، اور نشاۃ ثانیہ کی کہانی ہے۔

باب اول: چاندنی رات کے زخم

رات کے گیارہ بجے تھے۔ عارف اپنے کمرے میں کھڑکی کے سامنے کھڑا تھا۔ باہر چاند اپنی پوری رونق کے ساتھ چمک رہا تھا۔ ہوا کے ہلکے ہلکے جھونکے پردوں کو ہلا رہے تھے۔

اس کے ہاتھ میں ایک پرانی تصویر تھی۔ تصویر میں ثناء سفید سوٹ میں ملبوس تھی، اس کے ہاتھ میں ایک سرخ گلاب تھا۔ تین سال گزر چکے تھے مگر درد اب بھی ویسا ہی تازہ تھا۔

عارف (اپنے آپ سے): "ثناء... تمہارے بغیر یہ راتیں کتنی طویل ہو گئی ہیں..."

"محبت کا سب سے بڑا المیہ یہ نہیں کہ وہ چھوڑ کر چلی گئی۔۔۔ بلکہ یہ کہ وہ چلی گئی مگر اس کی یادیں چھوڑ گئی۔۔۔"

عارف نے تصویر کو اپنے سینے سے لگا لیا۔ آنسوؤں نے اس کی آنکھوں سے راستہ بنانا چاہا، مگر اس نے انہیں روک لیا۔ درد کو محسوس کرنا اب اس کی عادت بن چکی تھی۔

باب دوم: خوابوں کے مزار

صبح کی پہلی کرن نے عارف کو جگایا۔ وہ کرسی پر ہی سو گیا تھا، ہاتھ میں وہی پرانی تصویر تھی۔ اس نے آنکھیں کھولیں تو احساس ہوا کہ رات بھر وہ خوابوں میں ثناء کو ڈھونڈتا رہا تھا۔

ماں (فون پر): "بیٹا، تمہاری فکر نے مجھے بیمار کر دیا ہے۔ تم اگر ٹھیک ہو جاؤ تو میں ٹھیک ہو جاؤں۔"

عارف: "اماں، میں فوراً آ رہا ہوں۔"

ہسپتال پہنچ کر عارف نے دیکھا کہ اس کی ماں آکسیجن ماسک لگائے لیٹی ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر اس کے دل پر بجلی گر گئی۔ اسے احساس ہوا کہ اس کے درد نے اس کی ماں کو بھی بیمار کر دیا ہے۔

"کبھی کبھار ہمیں دوسروں کے درد کو دیکھ کر ہی اپنے درد کا احساس ہوتا ہے۔"

باب سوم: نئی صبح کے سفر

عارف نے یتیم خانے میں جانا شروع کیا۔ پہلے دن وہ وہاں 8 سالہ زین سے ملا، جو اپنے والدین کو ایک حادثے میں کھو چکا تھا۔

زین: "سر، کیا آپ ہمارے ساتھ کھیلیں گے؟"

عارف (پہلی بار مسکراتے ہوئے): "جی ضرور بیٹا۔"

پہلی بار عارف نے دل سے مسکرایا۔ یہ مسکراہٹ کئی مہینوں بعد اس کے چہرے پر آئی تھی۔ زین اور دوسرے بچوں کے ساتھ وقت گزارتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ زندگی میں اب بھی خوشی کے لمحات موجود ہیں۔

"جب آپ دوسروں کو خوشی دیتے ہیں، تو آپ خود بھی خوش ہو جاتے ہیں۔"

دفتر میں عارف کی کارکردگی بہتر ہونے لگی۔ اسے ترقی مل گئی اور وہ سینئر منیجر بن گیا۔ اس نے محسوس کیا کہ زندگی میں آگے بڑھنا اب بھی ممکن ہے۔

باب چہارم: نئی راہیں، نئے مقاصد

عارف کی خالہ نے اسے ایک دعوت پر بلایا جہاں اس کی ملاقات ایمان سے ہوئی، جو ایک اسکول ٹیچر تھی۔

ایمان: "میں نے سنا آپ یتیم بچوں کو پڑھاتے ہیں۔ یہ بہت خوبصورت کام ہے۔"

عارف: "جی، یہ کام مجھے خوشی دیتا ہے۔"

کئی ملاقاتوں کے بعد عارف اور ایمان کے درمیان گہری دوستی قائم ہوئی۔ عارف نے ایمان کو اپنی مکمل کہانی سنائی، اور ایمان نے اس کی باتوں کو سمجھا۔

"ہر انسان کے دل میں ماضی کے زخم ہوتے ہیں، مگر سچی دوستی ان زخموں پر مرہم رکھتی ہے۔"

ایمان نے یتیم خانے میں پڑھانا شروع کیا۔ بچوں نے اسے فوراً اپنا لیا۔ عارف نے دیکھا کہ ایمان کے آنے سے نہ صرف اس کی زندگی میں، بلکہ یتیم خانے کے بچوں کی زندگیوں میں بھی خوشیاں واپس آ رہی تھیں۔

باب پنجم: پھول کھلنے کا موسم

چھ ماہ کی دوستی کے بعد عارف اور ایمان کے خاندانوں نے منگنی طے کی۔ انہوں نے سادہ شادی کا فیصلہ کیا اور بچائی گئی رقم یتیم خانے کے لیے دی۔

ایمان: "عارف، میں تمہاری دیانت کی تعریف کرتی ہوں۔ ہر انسان کا ماضی ہوتا ہے۔"

عارف: "تمہیں شکریہ کہ تم نے مجھے سمجھا۔"

شادی کے دن عارف نے محسوس کیا کہ وہ ایک نئی زندگی شروع کر رہا ہے۔ اس نے ماضی کا احترام کرتے ہوئے حال کو قبول کیا اور مستقبل کو خوش آمدید کہا۔

"ماضی کو عزت دو، حال کو جیو، اور مستقبل کو خوش آمدید کہو۔"

نئے گھر میں پہلی رات، عارف اور ایمان نے مل کر نئے خواب دیکھے۔ وہ جانتے تھے کہ ان کا سفر ابھی شروع ہوا ہے۔

باب ششم: نیا گھر، نئے خواب

ایمان کے ہاں ایک خوبصورت بچے ربیع نے جنم لیا۔ عارف نے جب اپنے بیٹے کو پہلی بار گود میں لیا، تو اس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ گئے۔

زین: "سر، کیا ہم بھی آپ کے بچے کو دیکھ سکیں گے؟"

عارف (مسکراتے ہوئے): "تم سب اس کے بڑے بہن بھائی بنو گے!"

عارف اور ایمان نے مل کر یتیم خانے کو توسیع دی۔ انہوں نے لائبریری، کمپیوٹر لیب، اور کھیل کے میدان کا اضافہ کیا۔ یتیم خانے کے بچوں کے لیے یہ ایک نئی دنیا تھی۔

"جب آپ دوسروں کے لیے راستے بناتے ہیں، تو خدا آپ کے لیے راستے کھول دیتا ہے۔"

ایک دن عارف کی ملاقات ثناء سے ہوئی، جو بیمار تھی۔ عارف اور ایمان نے مل کر ثناء کی مدد کی۔ یہ معافی اور انسانی ہمدردی کا سبق تھا۔

ثناء: "تم نے مجھے معاف کر دیا۔ تم سچے انسان ہو۔"

عارف: "محبت میں معافی ہوتی ہے، مدد ہوتی ہے، انسانیت ہوتی ہے۔"

مکمل ارتقاء: ایک نیا آغاز

دس سال بعد، عارف اپنے گھر کی کھڑکی سے باہر دیکھ رہا ہے۔ ایمان ربیع کو پڑھا رہی ہے، یتیم خانے کے بچے کھیل رہے ہیں، اور سورج ڈوب رہا ہے۔

عارف نے اپنی ڈائری کھولی اور لکھا: "آج دس سال ہو گئے ہیں۔ میں وہ عارف نہیں رہا جو ٹوٹا ہوا تھا۔ میں مضبوط ہوں، خوش ہوں، پورا ہوں۔"

"میں نے سیکھا:
- محبت کبھی مرتی نہیں، صرف بدلتی ہے
- درد ہمیں مضبوط بناتا ہے
- معافی ہمیں آزاد کرتی ہے
- مدد ہمیں انسان بناتی ہے

آج میں کہہ سکتا ہوں:
میں عارف ہوں۔
میں ایک شوہر ہوں۔
میں ایک باپ ہوں۔
میں ایک استاد ہوں۔
میں ایک انسان ہوں۔
اور میں ان سب کرداروں میں خوش ہوں۔"

ہیر رانجھا - سچی محبت کی لازوال داستان...✨✨✨💞💞✨✨✨

ہیر رانجھا - سچی محبت کی لازوال داستان

ہیر رانجھا

سچی محبت کی لازوال داستان - مکمل تفصیلی بیان

1

جھنگ کی ہیر - خوبصورتی کی پیکر

دریائے چناب کے کنارے بسا شہر جھنگ اپنی سرسبزی اور شادابی کے لیے مشہور تھا، جہاں کھیتوں میں سنہری فصلیں لہلہاتی تھیں اور باغوں میں پھلوں کے درخت جھومتے تھے۔ اس شہر کے سید پور علاقے میں چوہدری ملو کا وسیع و عریض حویلی تھی جس کے دروازے ہمیشہ غریبوں اور مسافروں کے لیے کھلے رہتے تھے۔ چوہدری ملو سید پور کے معزز سردار تھے جن کی شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔

ان کی اکلوتی بیٹی ہیر اپنی خوبصورتی اور نفاست کے باعث پورے خطے میں مشہور تھی۔ ہیر کی خوبصورتی کا یہ عالم تھا کہ جب وہ باغ میں سیر کو نکلتی تو پرندے بھی اسے دیکھنے کے لیے ٹہر جاتے، پھول اپنی خوشبوؤں سے اس کا استقبال کرتے، اور دریا کی لہریں اس کے قدموں میں آ کر رک جاتیں۔ اس کے گہرے کالے بال اس کے کندھوں پر لہراتے جیسے دریائے چناب کی لہریں ہوں، جن میں سورج کی کرنیں پڑتیں تو ایسا لگتا جیسے چاندی کے دھاگے بکھر گئے ہوں۔ آنکھیں کشمیری بادام جیسی تھیں جن میں ایک عجیب سی دلکشی تھی، جب وہ مسکراتی تو ایسا لگتا جیسے پورا باغ کھل اٹھا ہو۔ رخسار گلاب کی پنکھڑیوں کی مانند سرخ و سپید تھے، جن پر ہلکی سی شرمیلی مسکراہٹ ہمیشہ کھیلتی رہتی۔

وہ سرخ و زرد رنگ کے پرنالے والے سوٹ پہنتی، جس پر سونے کے دھاگے سے نفیس کڑھائی کی گئی تھی، اور گلے میں موتیوں کا ہار پہنتی جو اس کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دیتا۔ ہیر نہ صرف خوبصورت تھی بلکہ ذہین اور تعلیم یافتہ بھی تھی۔ اسے گائیکی اور شاعری سے گہرا لگاؤ تھا، اور وہ قرآن پاک کی تعلیم بھی حاصل کر چکی تھی۔ اس کی آواز میں ایسی مٹھاس تھی کہ جب وہ گانا گاتی تو دریا کی لہریں بھی تھم سی جاتیں، پرندے چہچہانا بند کر دیتے، اور ہوا بھی اس کی آواز میں گم ہو جاتی۔

وہ صبح سویرے اٹھتی، نماز پڑھتی، پھر دریا کنارے سیر کو جاتی جہاں وہ پھول توڑتی اور ان کا ہار بناتی۔ اسے غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرنا بہت پسند تھا، اور وہ چپکے سے اپنی زکوٰۃ اور خیرات ان تک پہنچاتی رہتی تھی۔

"ہیر کی خوبصورتی فطرت کے حسن کا عکس تھی، اور اس کا دل دریا کی لہروں کی طرح صاف اور شفاف تھا"

2

رانجھا کی آمد - دربدری کا سفر

تخت ہزارے سے جھنگ کا سفر رانجھا کے لیے انتہائی کٹھن ثابت ہوا۔ وہ پیدل چلتا ہوا دریائے چناب کے کنارے کنارے جھنگ پہنچا۔ اس کے پاس صرف اس کی بین تھی اور کچھ نہیں - نہ کوئی سامان، نہ کوئی رقم، نہ کوئی ساتھی۔ اس کے کپڑے گرد آلود تھے، پاؤں میں چھالے پڑ چکے تھے، جسم تھکاوٹ سے چور تھا، مگر اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی تابانی تھی جو اس کے عزم اور ہمت کی عکاسی کرتی تھی۔

رانجھا تخت ہزارے کے سردار موندھے خان کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا۔ اس کے آٹھ بھائی تھے جو سب اس سے جلنے لگے تھے کیونکہ باپ اسے سب سے زیادہ چاہتا تھا۔ باپ کے انتقال کے بعد بھائیوں نے اس کا حصہ نہ دیا اور گھر سے نکال دیا۔ سفر کے دوران رانجھا کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا - پیدل سفر کے باعث تھکاوٹ، بھوک پیاس کا سامنا، راتوں کو درختوں کے نیچے گزارنا، اور ڈاکوؤں کا خوف۔ کئی بار اسے جنگلی جانوروں کا سامنا کرنا پڑا، اور کئی بار وہ بھٹک کر راستہ بھول گیا۔

جھنگ پہنچ کر رانجھا دریائے چناب کے کنارے بیٹھ گیا۔ اس نے بین نکالی اور بجانا شروع کی۔ بین کے سروں میں اس کا سارا درد اور کرب سما گیا۔ اس کی بین کی دھن میں وہ سارا غم تھا جو اسے اپنے بھائیوں کی بے وفائی سے ہوا تھا۔ بین کے سروں میں اس کی تنہائی، بے کسی، اور دربدری کی ٹھوکریں گونج رہی تھیں۔

"ہیر نے مجھے دیکھا ہے۔ اس کی آنکھوں میں حیرت ہے، تجسس ہے۔ کیا وہ میری بین سن رہی ہے؟ کیا اسے میرا راگ پسند آیا؟" رانجھا نے سوچا۔ اس کے دل میں ہیر کے لیے ایک عجیب سی محبت نے جنم لیا تھا، اگرچہ اس نے اسے صرف دور سے دیکھا تھا۔

3

پہلی ملاقات - محبت کا آغاز

ایک صبح ہیر اپنی سہیلیوں سجان، کگو، اور ماہی کے ساتھ باغ میں پھول توڑ رہی تھی۔ باغ میں کئی قسم کے پھول کھلے ہوئے تھے - گلاب اپنی سرخ و سفید پنکھڑیوں میں کھلے ہوئے تھے، چمیلی اپنی مہک بکھیر رہی تھی، موگرے کی سفید پنکھڑیاں ہوا میں جھوم رہی تھیں، اور رات کی رانی نے پورے باغ کو اپنی خوشبو سے معطر کر رکھا تھا۔ ہوا میں پھولوں کی خوشبو بسی ہوئی تھی، اور پرندے میٹھے سر میں چہچہا رہے تھے۔

اچانک ہیر کے کان میں ایک سریلی آواز پڑی جو دریا کے پار سے آ رہی تھی۔ یہ بین کی دھن تھی جس میں ایک عجیب سی سحر انگیزی تھی، جیسے کوئی اپنے دل کا سارا درد اور کرب ان سروں میں بھر رہا ہو۔ بین کی یہ دھن ہیر کے دل کو چھو گئی، اور اس نے حیرت سے اپنی سہیلیوں کی طرف دیکھا۔

"سہیلیو، یہ کون ہے جو اس طرح دل کو چھو لینے والا راگ الاپ رہا ہے؟" ہیر نے پوچھا، اس کی آواز میں تجسس اور حیرت کے جذبات تھے۔

سہیلی سجان نے جواب دیا: "ہیر! یہ تو دریا کے پار سے آ رہی ہے۔ چلو، دریا کنارے چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ یہ سریلی بین کون بجا رہا ہے۔"

"کیا خوب بین بجاتا ہے! ایسا لگتا ہے جیسے یہ بین میری ہی کہانی سنا رہی ہو۔ اس کے سروں میں کتنا درد ہے، کتنی محبت ہے!" - ہیر

4

خفیہ ملاقاتیں - محبت کی رسیاں

دریا کنارے پہنچ کر ہیر نے دیکھا کہ دریا کے پار ایک نوجوان بین بجا رہا ہے۔ اس کی بین کی دھن میں ایک عجیب سی کشش تھی جو ہیر کے دل کو چھو گئی۔ دریا کا پانی شفاف تھا، جس میں مچھلیاں تیر رہی تھیں، اور کنارے پر لگے املی کے درختوں کی چھاؤں میں بیٹھنا ایک الگ ہی سکون دیتا تھا۔

ہیر نے محسوس کیا کہ بین کے ان سروں میں کوئی پکار ہے، کوئی درد ہے جو اس کے اپنے دل کی دھڑکن بن گیا تھا۔ اس نے سوچا: "کیا خوب بین بجاتا ہے! ایسا لگتا ہے جیسے یہ بین میری ہی کہانی سنا رہی ہو۔ اس کے سروں میں کتنا درد ہے، کتنی محبت ہے!"

ہیر کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک آ گئی، اور اس کے دل میں ایک نئی سی بے چینی نے جنم لیا۔ وہ پورا دن اسی بین کی آواز میں کھوئی رہی، اور رات کو وہ سو نہ سکی۔ اس نے اپنی دایہ سے کہا: "دایا، میں نے آج ایسی بین سنی ہے جو میرے دل کو چھو گئی ہے۔"

دایہ نے مشورہ دیا: "بیٹی ہیر، یہ دنیا بہت بڑی ہے۔ ہر روز نئے لوگ آتے ہیں، جاتے ہیں۔ تم اپنے خاندان کی عزت والی بیٹی ہو، ان باتوں پر دھیان مت دو۔"

مگر ہیر کی آنکھوں میں نیند نہیں تھی۔ وہ بار بار کھڑکی سے دریا کی طرف دیکھتی، اور اس کے دل میں ایک عجیب سی بے چینی تھی۔ اس نے سوچا: "کون ہے یہ رانجھا؟ کیسا ہے؟ کیوں اس کی بین میں اتنا درد ہے؟ کیا وہ واقعی اتنا ہی خوبصورت ہے جیسا اس کی بین سریلی ہے؟"

5

باڑے میں ملازمت - قربت کا موقع

صبح ہوتے ہی ہیر دریا کنارے پہنچ گئی۔ اسے امید تھی کہ شاید رانجھا پھر بین بجائے گا۔ مگر دریا کنارے سناٹا تھا، صرف دریا کی لہروں کی آواز آ رہی تھی۔ ہیر نے اپنی سہیلیوں سے کہا: "چلو، آج ہم پھر دریا کنارے چلتے ہیں۔"

دوسرے دن ہیر پھر اپنی سہیلیوں کے ساتھ دریا کنارے گئی۔ اس دن رانجھا وہاں موجود تھا۔ وہ دریا کنارے بیٹھا بین بجا رہا تھا۔ ہیر نے پہلی بار رانجھا کا چہرہ دیکھا۔ وہ واقعی خوبصورت تھا - گورا رنگ، لمبے بال، چھریرا بدن، اور آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک۔ ہیر کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ اس نے پہلی بار کسی لڑکے کو دیکھ کر ایسا محسوس کیا تھا۔

رانجھا نے ہیر کو دیکھا اور اس کی بین کے سروں میں تبدیلی آئی۔ اب بین میں محبت کے سُر گونجنے لگے۔ ہیر نے محسوس کیا کہ یہ سُر اس کے لیے ہی ہیں۔ باغ سے واپسی پر ہیر خاموش تھی۔ سہیلیوں نے پوچھا: "ہیر، تم آج خاموش ہو؟"

ہیر نے مسکراتے ہوئے کہا: "نہیں، بس سوچ رہی ہوں۔"

رات کو ہیر نے اپنی ڈائری میں لکھا: "آج میں نے اسے دیکھا۔ وہ واقعی وہی ہے جیسا میں نے سوچا تھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک ہے۔ جب اس نے مجھے دیکھا، اس کی بین کے سروں میں محبت بھر گئی۔ کیا یہ محبت ہے؟"

6

محبت کا اظہار - دل کی بات

اگلے کئی دنوں تک ہیر روز دریا کنارے جاتی اور رانجھا کو بین بجاتے دیکھتی۔ دونوں کی نظریں ملتیں، مگر بات نہیں ہوتی تھی۔ ہر روز ہیر کے دل میں رانجھا کے لیے محبت بڑھتی گئی۔ وہ اس کی بین کے سروں میں اس کے درد کو محسوس کرتی، اور اس کی آنکھوں میں اس کی تنہائی کو دیکھتی۔

ایک دن ہیر نے طے کیا کہ وہ رانجھا سے بات کرے گی۔ اس نے اپنی سہیلیوں سے کہا: "میں اس سے بات کرنا چاہتی ہوں۔"

دریا کنارے ہیر رانجھا کے پاس گئی۔ اس کے قدم ڈگمگا رہے تھے، اور دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ "تم بہت خوبصورت بین بجاتے ہو،" ہیر نے نرمی سے کہا۔

رانجھا نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: "تمہارا شکریہ۔ تم ہیر ہو نا؟ تمہاری خوبصورتی کا چرچا تو پورے خطے میں ہے۔"

"ہاں، میں ہیر ہوں۔ تمہارا نام؟" "میں رانجھا ہوں۔ تمہاری خوبصورتی نے مجھے مسحور کر دیا ہے۔"

"ہیر، تم میرے دل پر حکومت کرتی ہو۔ میں تم سے محبت کرتا ہوں۔" - رانجھا

"رانجھا، تمہاری محبت نے مجھے زندہ کیا ہے۔ میں بھی تم سے محبت کرتی ہوں۔" - ہیر

7

خاندانی مخالفت - راز کا انکشاف

ہیر کے چچا کھیڑو نے محسوس کیا کہ ہیر کچھ پریشان ہے۔ وہ چوہدری ملو کے پاس گئے: "بھائی، ہیر کے رویے میں آج کل کچھ تبدیلی ہے۔ وہ اکثر خاموش رہتی ہے، کھڑکی سے باہر دیکھتی رہتی ہے، اور کھانا پینا بھی چھوڑ دیا ہے۔"

چوہدری ملو نے کہا: "ہیر تو ہمیشہ سے سنجیدہ لڑکی رہی ہے۔ تمہیں غلط لگ رہا ہوگا۔ شادی کی عمر ہو گئی ہے، شاید اسی لیے پریشان ہے۔"

کھیڑو نے ایک چال چلی۔ اس نے اپنی بیٹی سے کہا کہ وہ ہیر کے قریب رہے اور اس کی حرکات و سکنات پر نظر رکھے۔ کھیڑو کی بیٹی نے دیکھا کہ ہیر رات کے وقت چپکے سے باہر نکلتی ہے اور باڑے کی طرف جاتی ہے۔

ایک رات جب ہیر رانجھا سے ملنے جا رہی تھی، کھیڑو نے اسے دیکھ لیا۔ وہ چپکے سے پیچھے ہو لیا۔ املی کے درخت کے نیچے ہیر اور رانجھا بیٹھے تھے۔ ہیر نے کہا: "مجھے ڈر ہے کہیں ہمارا راز نہ کھل جائے۔"

رانجھا نے جواب دیا: "ہم کسی کو شک کا موقع نہیں دیں گے۔ میں تم سے محبت کرتا ہوں، اور تمہارے سوا کسی کو نہیں چاہتا۔"

اچانک کھیڑو نے آواز لگائی: "ہیر! یہ تم یہاں کیا کر رہی ہو؟ ایک غریب چرواہے کے ساتھ؟"

8

جبری شادی - دل ٹوٹنے کا درد

ہیر گھبرا گئی۔ رانجھا نے اسے پیچھے کھینچ لیا۔ کھیڑو نے غصے سے کہا: "تو یہ ہے تمہاری سیر؟ تم نے خاندان کی عزت کو پاؤں تلے روند ڈالا!"

ہیر نے بہادری سے جواب دیا: "چچا جان، یہ صرف بات چیت ہو رہی تھی۔ رانجھا کوئی عام چرواہا نہیں ہے، وہ تخت ہزارے کے سردار کا بیٹا ہے۔"

کھیڑو نے وعدہ کیا: "چلو، میں تمہارے باپ سے بات کرتا ہوں۔ مگر تم فوراً گھر چلو۔"

گھر واپس آ کر ہیر کے دل کی دھڑکنیں تیز تھیں۔ اسے ڈر تھا کہ اب کیا ہوگا۔ کھیڑو نے چوہدری ملو کو ساری بات بتا دی۔ چوہدری ملو غصے سے بپھر گئے۔ انہوں نے ہیر کو بلایا: "تم نے خاندان کی عزت کو داؤ پر لگا دیا! ایک چرواہے کے ساتھ؟"

ہیر نے بہادری سے جواب دیا: "ابّا، رانجھا کوئی عام لڑکا نہیں ہے۔ وہ تعلیم یافتہ ہے، شریف ہے، اور تخت ہزارے کے سردار کا بیٹا ہے۔"

چوہدری ملو نے فیصلہ سنایا: "رانجھا کو فوراً باڑے سے نکالا جاتا ہے۔ ہیر کی شادی جلد از جلد طے کی جاتی ہے۔"

"ابّا، میں نے رانجھا سے محبت کی ہے۔ میں کسی اور سے شادی نہیں کر سکتی۔" - ہیر کی آخری التجا

"محبت؟ تمہیں پتہ ہے تم کیا کہہ رہی ہو؟ ہماری خاندانی عزت تمہاری محبت سے زیادہ اہم ہے۔" - چوہدری ملو کا ٹھنڈا جواب

9

فراق کی راتیں - جدائی کا عذاب

ایک ملازم نے رانجھا کو خبر دی کہ اسے باڑے سے نکال دیا گیا ہے۔ رانجھا پریشان ہو گیا: "ہیر کا کیا ہوگا؟ میں اسے یوں نہیں چھوڑ سکتا۔"

رانجھا نے ہیر کو خفیہ طور پر پیغام بھیجا۔ وہ دریا کنارے ملے۔ ہیر نے کہا: "تمہیں چلے جانا پڑے گا۔ میرے ابّا نے تمہیں باڑے سے نکال دیا ہے۔"

رانجھا نے جواب دیا: "تمہارے بغیر میں کہاں جاؤں گا؟ تم میری زندگی ہو۔"

ہیر نے وعدہ کیا: "میں تمہیں کبھی نہیں بھول سکتی۔ چاہے میری شادی کسی سے بھی ہو جائے، میرا دل ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گا۔"

رانجھا نے کہا: "میں واپس آؤں گا، تمہیں لے کر جاؤں گا۔ ہم کسی نہ کسی طرح اکٹھے ہو کر رہیں گے۔"

دونوں نے وعدہ کیا کہ وہ ایک دوسرے کا انتظار کریں گے۔ ہیر نے رانجھا کو اپنا ہار دیا، اور رانجھا نے ہیر کو اپنی بین کا ایک تار دیا۔ صبح ہوتے ہی رانجھا نے جھنگ چھوڑ دیا۔ ہیر کھڑکی سے اسے جاتے ہوئے دیکھتی رہی، آنسوؤں سے اس کا رومال بھیگ گیا۔

10

ہیر کی شادی - جبری بیاہ

چوہدری ملو نے ہیر کی شادی سید پور کے ایک امیر خاندان میں طے کر دی۔ ہیر نے بہت ضد کی، روئی، التجا کی، مگر باپ نے ایک نہ سنی۔ ہیر کی ماں کے انتقال کے بعد چوہدری ملو نے دوسری شادی کر لی تھی، اور ہیر کی سوتیلی ماں اسے پسند نہیں کرتی تھی۔

شادی کا دن آیا۔ ہیر کو دولہا کے گھر لے جایا جا رہا تھا۔ وہ دل ہی دل میں رانجھا کو پکار رہی تھی۔ دولہا کا نام سید کھیڑا تھا۔ وہ عمر میں ہیر سے بہت بڑا تھا اور اس کی پہلی بیوی کا انتقال ہو چکا تھا۔ ہیر کو دولہا کے گھر لے جایا گیا۔ وہاں اسے سسرال والوں نے بہت تنگ کیا۔ وہ رات دن رانجھا کو یاد کرتی، اس کی بین کا تار سنبھال کر رکھتی۔

ایک دن ہیر کی ساس نے اسے ڈانٹا: "تم ہمیشہ اداس کیوں رہتی ہو؟ تمہیں ہمارا گھر پسند نہیں؟ تمہاری شادی ہمارے بیٹے سے ہوئی ہے، مگر تم تو ایسے رویے دکھاتی ہو جیسے تمہاری مرضی کے خلاف شادی ہوئی ہو۔"

ہیر نے جواب دیا: "نہیں، ایسی بات نہیں ہے۔ میں بس تھوڑی بیمار ہوں۔"

مگر اس کا دل ہمیشہ رانجھا کے ساتھ دھڑکتا تھا۔ وہ ہر روز دریا کنارے جاتی اور رانجھا کی بین کے تار کو دیکھتی، اسے یاد کرتی۔ اس کے آنسو دریا کی لہروں میں بہہ جاتے۔

11

رانجھا کا سفر - در در کی ٹھوکریں

رانجھا جھنگ سے نکلا تو اس نے تخت ہزارے واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ راستے میں اسے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ در در کی ٹھوکریں کھاتا رہا۔ کبھی بھوکا رہا، کبھی پیاسا۔ کئی دنوں تک اس کے منہ میں کوئی نوالہ نہیں گیا۔ وہ جنگلوں میں پھل کھا کر گزارا کرتا، اور دریا کا پانی پیتا۔

ایک دن وہ ایک صوفی کے خانقاہ میں پہنچا۔ صوفی نے اسے دیکھ کر پوچھا: "بیٹا، تمہیں کیا تکلیف ہے؟ تمہارے چہرے پر غم کے سائے ہیں۔"

رانجھا نے اپنی ساری کہانی سنائی - ہیر سے محبت، اس کی جدائی، دربدری کی زندگی۔ صوفی نے کہا: "سچی محبت ہر مشکل کو آسان کر دیتی ہے۔ تمہیں صبر کرنا ہوگا۔ تمہاری محبت کا امتحان ہے، اور تمہیں اس میں کامیاب ہونا ہوگا۔"

رانجھا نے صوفی کے پاس کچھ وقت گزارا۔ اس نے روحانی تعلیم حاصل کی اور اپنے آپ کو مضبوط کیا۔ صوفی نے اسے سکھایا کہ محبت صرف ایک جذبہ نہیں، بلکہ ایک روحانی سفر ہے۔

ایک رات اس نے خواب میں ہیر کو دیکھا۔ ہیر رو رہی تھی اور اسے پکار رہی تھی: "رانجھا، تم کہاں ہو؟ میں تمہارا انتظار کر رہی ہوں۔" رانجھا نے فیصلہ کیا کہ وہ ہیر کو ڈھونڈنے جائے گا۔

12

درویش بن کر واپسی - نیا بھیس

رانجھا نے درویش کا بھیس اختیار کیا۔ اس نے لمبے لمبے بال رکھے، بڑی بڑی داڑھی بنا لی، اور سادہ کپڑے پہنے۔ وہ ہیر کے سسرال والے قصبے میں پہنچا۔ قصبے میں پہنچ کر اس نے بین بجانا شروع کی۔ بین کی آواز ہیر کے کان میں پڑی۔ وہ پہچان گئی کہ یہ رانجھا کی بین ہے۔

ہیر نے اپنی سہیلی سے کہا: "یہ رانجھا کی بین ہے۔ وہ آ گیا ہے۔ میں اس کی بین کی آواز پہچانتی ہوں۔"

سہیلی نے رانجھا کو خفیہ طور پر پیغام پہنچایا۔ رانجھا اور ہیر کی ملاقات ہوئی۔ ہیر نے کہا: "تم آ گئے رانجھا! میں جانتی تھی تم آؤ گے۔ میں تمہارے انتظار میں ہر روز دریا کنارے جاتی تھی۔"

رانجھا نے جواب دیا: "ہیر، میں تمہیں لے کر جاؤں گا۔ میں نے وعدہ کیا تھا کہ واپس آؤں گا، اور اب آیا ہوں۔"

ہیر نے کہا: "میں تمہارے ساتھ چلنے کو تیار ہوں۔ چاہے کتنی ہی مشکلات آئیں، میں تمہارے ساتھ رہوں گی۔"

13

بھاگ نکلنا - رات کی تاریکی میں

رانجھا اور ہیر نے رات کے اندھیرے میں بھاگ نکلنے کا فیصلہ کیا۔ ہیر نے اپنے زیورات اور کچھ رقم ساتھ لی۔ وہ رات کے پچھلے پہر سسرال سے نکلے۔ راستے میں انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ دریا پار کرنا، جنگل سے گزرنا، اور پیچھا کرنے والوں سے بچنا۔

ہیر نے کہا: "مجھے تم پر پورا بھروسہ ہے۔ تم جہاں لے جاؤ گے، میں وہیں جاؤں گی۔"

رانجھا نے جواب دیا: "میں تمہیں کسی صورت نقصان نہیں پہنچنے دوں گا۔ ہم اکٹھے رہیں گے، چاہے موت ہی کیوں نہ آ جائے۔"

وہ چلتے رہے، یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ وہ ایک غار میں چھپ گئے، تاکہ پیچھا کرنے والے انہیں نہ ڈھونڈ سکیں۔

14

پیچھا اور پکڑے جانا - اختتام کا آغاز

چوہدری ملو اور ہیر کے سسرال والوں نے ان کا پیچھا کیا۔ وہ دریائے چناب کے کنارے انہیں پکڑنے میں کامیاب ہو گئے۔ چوہدری ملو نے غصے سے کہا: "ہیر! تم نے خاندان کی عزت کو پاؤں تلے روند ڈالا! تمہیں پتہ ہے تم نے کیا کیا ہے؟"

ہیر نے بہادری سے جواب دیا: "ابّا، محبت کو روکا نہیں جا سکتا۔ میں رانجھا سے محبت کرتی ہوں، اور اس کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔"

انہیں قاضی کے سامنے پیش کیا گیا۔ قاضی نے ہیر سے پوچھا: "تمہاری مرضی کیا ہے؟ تم کس کے ساتھ رہنا چاہتی ہو؟"

ہیر نے کہا: "میں رانجھا سے محبت کرتی ہوں، اس کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔ میری شادی میرے مرضی کے خلاف ہوئی تھی۔"

قاضی نے فیصلہ دیا کہ ہیر کو اپنی مرضی سے رہنے دیا جائے، مگر چوہدری ملو نے ماننے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا: "ہماری خاندانی عزت اس کی اجازت نہیں دیتی۔"

15

زہر کا پیالہ - محبت کی قربانی

ہیر کے خاندان والوں نے رانجھا کو زہر دے دیا۔ رانجھا نے ہیر سے کہا: "مجھے زہر دے دیا گیا ہے۔ میں مرنے والا ہوں۔"

ہیر نے جواب دیا: "تمہارے بغیر میں زندہ نہیں رہ سکتی۔ اگر تم مر جاؤ گے تو میں بھی تمہارے ساتھ مر جاؤں گی۔"

ہیر نے فیصلہ کیا کہ وہ بھی رانجھا کے ساتھ مرے گی۔ اس نے کہا: "جہاں تم جاؤ گے، میں بھی ساتھ ہوں گی۔ موت بھی ہمیں جدا نہیں کر سکتی۔"

"ہیر، تمہاری محبت نے میری زندگی روشن کر دی۔ تم نے مجھے وہ محبت دی جو میں نے کبھی محسوس نہیں کی تھی۔" - رانجھا کی آخری باتیں

"رانجھا، تمہارے ساتھ موت بھی زندگی ہے۔ ہم ہمیشہ اکٹھے رہیں گے، چاہے موت کے بعد ہی کیوں نہ ہو۔" - ہیر کا آخری وعدہ

16

آخری سانسیں - ہمیشہ کی جدائی

دونوں دریائے چناب کے کنارے ایک دوسرے کے بازوؤں میں دم توڑ گئے۔ رانجھا نے آخری سانسوں میں کہا: "ہیر، تمہاری محبت نے میری زندگی روشن کر دی۔ تم نے مجھے وہ محبت دی جو میں نے کبھی محسوس نہیں کی تھی۔"

ہیر نے جواب دیا: "رانجھا، تمہارے ساتھ موت بھی زندگی ہے۔ ہم ہمیشہ اکٹھے رہیں گے، چاہے موت کے بعد ہی کیوں نہ ہو۔"

انہیں جھنگ کے قریب دفن کیا گیا۔ عوام نے ان کی محبت کو سلام کیا۔ آج بھی لوگ ان کے مقبرے پر جاتے ہیں اور ان کی محبت کی داستان سناتے ہیں۔

"سچی محبت کبھی نہیں مرتی، وہ ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ ہیر اور رانجھا کی محبت آج بھی دریائے چناب کی لہروں میں بسی ہوئی ہے۔"

خاتمہ: محبت کی لازوال داستان

ہیر رانجھا کی محبت کی داستان صدیوں سے پنجابی ثقافت کا حصہ ہے۔ یہ کہانی سچی محبت، قربانی، اور ہمت کی عکاس ہے۔ سچی محبت کبھی نہیں مرتی، وہ ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ ہیر اور رانجھا کی محبت آج بھی دریائے چناب کی لہروں میں بسی ہوئی ہے۔

یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ محبت صرف ملنے میں نہیں، بلکہ قربانیوں میں بھی ہوتی ہے۔ اور بعض اوقات محبت کی سب سے بڑی شکل ہوتا ہے - چھوڑ دینا۔ ہیر رانجھا کی محبت سچی محبت کی علامت بن گئی۔ یہ کہانی وفا، قربانی اور ہمت کی عکاس ہے۔ آج بھی دریائے چناب کی لہریں ہیر رانجھا کی محبت کی داستان سناتی ہیں۔

"محبت وہ دریا ہے جو ہر رکاوٹ کو بہا لے جاتا ہے، ہر پہاڑ کو کاٹ دیتا ہے، اور ہر مشکل کو آسان بنا دیتا ہے۔ ہیر رانجھا کی محبت آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہے۔"

وہ لڑکی جو دریا سے باتیں کرتی تھی - مکمل ناول...🤷‍♂️🤷‍♂️🤷‍♂️🤷‍♂️🤷‍♂️

وہ لڑکی جو دریا سے باتیں کرتی تھی - مکمل ناول

وہ لڑکی جو دریا سے باتیں کرتی تھی

ایک مکمل ناول - تحریر: آپ کا قلم

مکمل کہانی

باب 1: پہلی سرگوشی

سورج ڈھل رہا تھا اور دریا کی لہروں پر سنہری روشنی بکھر رہی تھی۔ نAYRA اپنی پسندیدہ چٹان پر بیٹھی، آنکھیں بند کیے، صرف سن رہی تھی۔ عام دنوں میں دریا کچھ یوں بولتا تھا، "شhhhhhhhh... شhhhhhh..." ایک مسلسل، سکون بخش دھن، جیسے کوئی ماں اپنے بچے کو سلانے کے لیے لوری دے رہی ہو۔

مگر آج... کچھ مختلف تھا۔ دریا کی سرگوشی میں ایک کھردرا پن تھا۔ ایک بے چینی۔ لہروں کی آواز میں وہ شِیرینی نہیں تھی، بلکہ ایک دبے ہوئے درد کی سی کھنک تھی، جیسے کوئی زخمی جانور آہستہ سے کراہ رہا ہو۔

نAYRA نے آنکھیں کھولیں۔ اس کی بھنویں سکیڑی گئیں۔ اس نے دریا کے پانی کو غور سے دیکھا۔ ظاہری طور پر سب کچھ ویسا ہی تھا۔ صاف، نیلگوں پانی جو کناروں پر جھاگ سا بناتا ہوا بہہ جا رہا تھا۔ پرندے آوازیں دے رہے تھے اور دور کھیتوں میں ہل چل رہا تھا۔

پھر اچانک، ایک تیز ہوا کا جھونکا آیا، اور دریا کی آواز اس کے کانوں میں صاف گونجی، "دیکھ... دیکھ اندر... دیکھ میرے اندر..."

یہ الفاظ نہیں تھے، یہ ایک احساس تھا۔ ایک فوری، زبردست پیغام جو اس کے دل و دماغ میں اتر گیا۔ اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔

اس نے جھٹ سے اپنا ہاتھ بڑھایا اور پانی میں ڈبو دیا۔ عام دنوں کی طرح پانی کی ٹھنڈک نے اس کی کلائی کو چھوا، مگر آج اس ٹھنڈک میں ایک عجیب سی کڑواہٹ چھپی ہوئی تھی، جیسے کسی نے تازہ پانی میں زہر کی ایک بوند ملا دی ہو۔

اس نے ہاتھ باہر نکالا اور انگلیاں اکٹھی کر کے مل کر دیکھا۔ پانی کے قطرے اس کی انگلیوں سے ٹپک رہے تھے، مگر ان میں سے ایک عجیب بو آ رہی تھی... دھاتی اور تیز۔

"یہ کیا ہے؟" اس نے اپنے آپ سے پوچھا، اس کی آواز میں حیرت اور ڈونٹھا تھا۔

"خطرہ..." دریا کی آواز ایک بار پھر اس کے ذہن میں گونجی، مدھم مگر صاف، "وہ آ رہے ہیں... میری روح کو مارنے..."

نAYRA کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ یہ پہلی بار نہیں تھا جب دریا نے اس سے بات کی تھی، مگر اتنا واضح، اتنا ڈراؤنا پیغام پہلی بار تھا۔ وہ اٹھی، اس کے پاؤں لڑکھڑا رہے تھے۔ اس نے دریا کی طرف ایک آخری نظر ڈالی، جو اب بے چین لہروں کے ساتھ بہہ رہا تھا، جیسے اسے جلد سے جلد کوئی بات کہنی ہو۔

وہ چٹان سے اتر کر کنارے پر کھڑی ہو گئی۔ گاؤں کی طرف جانے والی پگڈنڈی پر اس کی نظر پڑی۔ وہاں، دور، گرد کا ایک بادل اٹھ رہا تھا۔ کوئی گاڑی آ رہی تھی۔ ایک بڑی، شاندار گاڑی، جیسی اس کے چھوٹے سے گاؤں میں کبھی کبھار ہی دیکھنے کو ملتی تھی۔

دریا کی آواز ایک بار پھر پہنچی، اب بس ایک ہی لفظ: "وہ..."

باب 2: تحقیق اور دریافت

بس دریا کا پیغام ملتے ہی نAYRA نے فوراً عمران کو فون کیا۔ "عمران! دریا نے بتایا ہے... آج رات وہ زہر لے کر آ رہے ہیں!"

عمران کی آواز میں نیند تھی، مگر وہ فوراً جاگ گیا۔ "کہاں؟ کب؟"

"آدھی رات کو، جب چاند سب سے اونچا ہو۔ دریا کے اس حصے میں جہاں پرانا ویران گودام ہے۔"

"ٹھیک ہے،" عمران نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔ "ہم انہیں red-handed پکڑیں گے۔ میں اپنا camera لیتا ہوں۔ night vision والا۔ evidence کے لیے ضروری ہے۔"

رات کے پچھلے پہر، دونوں دریا کے کنارے ویرانے گودام کے پیچھے چھپ گئے۔ ہوا میں ایک سنسناہٹ تھی۔ دریا آہستہ آہستہ بول رہا تھا، "آ رہے ہیں... آ رہے ہیں..."

پھر دور سے ہیڈلائٹس نظر آئے۔ ایک وین آ رہی تھی۔ وہ گودام کے سامنے رکی۔ تین آدمی اترے۔ انہوں نے ڈرم نکالے۔ زہریلے کیمیکلز کے ڈرم۔

"جلدی کرو،" ایک آواز گونجی۔ "سردار صاحب نے کہا ہے آج کا کام پورا کرنا ہے۔"

عمران نے camera چلا دیا۔ record ہو رہا تھا۔

اسی لمحے، نAYRA کا پاؤں ایک خشہ پتے پر پڑا۔ C R U N C H!

آواز سن کر وہ تینوں آدمی چوکنا ہو گئے۔ "کون ہے وہاں؟!"

ایک نے ٹارچ جلائی۔ روشنی سیدھی نAYRA اور عمران پر پڑی۔

"اوہ! وہی دو نوکری چور!" ان میں سے ایک چلایا۔ "پکڑو انہیں!"

نAYRA اور عمران نے بھاگنے کی کوشش کی، مگر وہ تینوں آدمی تیزی سے ان کی طرف بڑھے۔

"Camera دے دو!" ایک نے غصے سے کہا۔

عمران نے camera پیچھے ہاتھ میں چھپا لیا۔ "نہیں دے سکتا!"

ایک آدمی نے نAYRA کا ہاتھ پکڑ لیا۔ "تمہیں پتہ ہے تم کس کے راستے میں روڑے اٹکا رہی ہو؟"

اسی لمحے... دریا میں ایک عجیب ہلچل پیدا ہوئی۔ اچانک ایک بڑی لہر اٹھی اور کنارے سے ٹکرائی، ان تینوں آدمیوں کو پانی میں گرا دیا۔

"بچو! بچو!" وہ چلائے۔

نAYRA اور عمران نے موقع دیکھا اور بھاگ کھڑے ہوئے۔ ان کے ہاتھوں میں camera تھا۔ evidence تھا۔ ثبوت تھا۔

دور بھاگتے ہوئے، نAYRA نے مڑ کر دیکھا۔ دریا کے پانی میں وہ تینوں آدمی تیر رہے تھے، اور ڈرم کنارے پر پڑے تھے۔ زہر کا ڈرم ابھی تک دریا میں نہیں گرا تھا۔

وہ سانس اندر کھینچتے ہوئے بولی، "دریا نے ہماری مدد کی..."

عمران نے camera مضبوطی سے تھاما۔ "اب ہمارے پاس ثبوت ہے۔ اب ہم سردار اعجاز کو بے نقاب کر سکتے ہیں۔"

باب 3: پہلا تصادم

گاڑی کا دروازہ کھلا اور ایک درمیانی عمر کا مرد باہر نکلا۔ وہ ایک ستلی ہوئے سفید سوٹ میں ملبوس تھا۔ اس کے چہرے پر ایک مصنوعی مسکراہٹ تھی، مگر آنکھیں بلکل بے رحم تھیں۔

"سلام علیکم،" اس نے میٹھی آواز میں کہا۔ "میں ہوں سردار اعجاز۔ اور تم ہی... نAYRA؟ تمہارے بارے میں سنا ہے۔ دریا کی دوست۔"

نAYRA نے عمران کی طرف دیکھا۔ اس کے ہاتھ میں پانی کا sample تھا، جو اب خطرے کی واضح نشانی بن چکا تھا۔

سردار اعجاز نے ان کے ہاتھوں میں test kits دیکھے۔ اس کی مسکراہٹ اور بھی مصنوعی ہو گئی۔

"اوہ، کیا بات ہے! ہمارے نوجوان سائنس دان؟" اس نے طنز کیا۔ "پانی کی جانچ؟ بہت اچھا۔ ویسے، میں یہاں ایک اچھی خبر لے کر آیا ہوں۔ ہم اس علاقے میں ترقی کا ایک بہت بڑا منصوبہ لانے والے ہیں۔ نوکریاں۔ سہولیات۔"

اس نے دریا کی طرف اشارہ کیا۔ "یہ دریا... یہ تو بس پانی ہے۔ ترقی کے لیے کچھ قربانیاں تو دینی پڑتی ہیں۔"

اسی لمحے، دریا کی ایک تیز لہر کنارے سے ٹکرائی، جیسے غصے کا اظہار کر رہی ہو۔

سردار اعجاز نے پیچھے ہٹتے ہوئے کہا، "تم نوجوانوں کو سمجھنا چاہیے۔ راستے میں مت کھڑے ہو۔"

یہ کہہ کر وہ گاڑی میں واپس بیٹھ گیا اور چلا گیا۔

عمران نے نAYRA کی طرف دیکھا۔ "یہ تو محض شروعات ہے۔ ہمیں مزید ثبوت چاہیں۔"

رات گئے، نAYRA اپنے کمرے میں بیٹھی دریا کی آواز پر غور کر رہی تھی۔ اچانک دریا نے اسے ایک نیا پیغام دیا:

"کل رات... جب چاند آسمان پر ہو... وہ زہر کی پہلی کھیپ لائیں گے..."

نAYRA کی آنکھوں میں ایک نیا عزم چمکا۔ اب وہ جانتی تھی کہ انہیں کب اور کہاں حملے کا انتظار کرنا ہے۔

باب 4: رات کا معرکہ

بس دریا کا پیغام ملتے ہی نAYRA نے فوراً عمران کو فون کیا۔ "عمران! دریا نے بتایا ہے... آج رات وہ زہر لے کر آ رہے ہیں!"

عمران کی آواز میں نیند تھی، مگر وہ فوراً جاگ گیا۔ "کہاں؟ کب؟"

"آدھی رات کو، جب چاند سب سے اونچا ہو۔ دریا کے اس حصے میں جہاں پرانا ویران گودام ہے۔"

"ٹھیک ہے،" عمران نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔ "ہم انہیں red-handed پکڑیں گے۔ میں اپنا camera لیتا ہوں۔ night vision والا۔ evidence کے لیے ضروری ہے۔"

رات کے پچھلے پہر، دونوں دریا کے کنارے ویرانے گودام کے پیچھے چھپ گئے۔ ہوا میں ایک سنسناہٹ تھی۔ دریا آہستہ آہستہ بول رہا تھا، "آ رہے ہیں... آ رہے ہیں..."

پھر دور سے ہیڈلائٹس نظر آئے۔ ایک وین آ رہی تھی۔ وہ گودام کے سامنے رکی۔ تین آدمی اترے۔ انہوں نے ڈرم نکالے۔ زہریلے کیمیکلز کے ڈرم۔

"جلدی کرو،" ایک آواز گونجی۔ "سردار صاحب نے کہا ہے آج کا کام پورا کرنا ہے۔"

عمران نے camera چلا دیا۔ record ہو رہا تھا۔

اسی لمحے، نAYRA کا پاؤں ایک خشہ پتے پر پڑا۔ C R U N C H!

آواز سن کر وہ تینوں آدمی چوکنا ہو گئے۔ "کون ہے وہاں؟!"

ایک نے ٹارچ جلائی۔ روشنی سیدھی نAYRA اور عمران پر پڑی۔

"اوہ! وہی دو نوکری چور!" ان میں سے ایک چلایا۔ "پکڑو انہیں!"

نAYRA اور عمران نے بھاگنے کی کوشش کی، مگر وہ تینوں آدمی تیزی سے ان کی طرف بڑھے۔

"Camera دے دو!" ایک نے غصے سے کہا۔

عمران نے camera پیچھے ہاتھ میں چھپا لیا۔ "نہیں دے سکتا!"

ایک آدمی نے نAYRA کا ہاتھ پکڑ لیا۔ "تمہیں پتہ ہے تم کس کے راستے میں روڑے اٹکا رہی ہو؟"

اسی لمحے... دریا میں ایک عجیب ہلچل پیدا ہوئی۔ اچانک ایک بڑی لہر اٹھی اور کنارے سے ٹکرائی، ان تینوں آدمیوں کو پانی میں گرا دیا۔

"بچو! بچو!" وہ چلائے۔

نAYRA اور عمران نے موقع دیکھا اور بھاگ کھڑے ہوئے۔ ان کے ہاتھوں میں camera تھا۔ evidence تھا۔ ثبوت تھا۔

دور بھاگتے ہوئے، نAYRA نے مڑ کر دیکھا۔ دریا کے پانی میں وہ تینوں آدمی تیر رہے تھے، اور ڈرم کنارے پر پڑے تھے۔ زہر کا ڈرم ابھی تک دریا میں نہیں گرا تھا۔

وہ سانس اندر کھینچتے ہوئے بولی، "دریا نے ہماری مدد کی..."

عمران نے camera مضبوطی سے تھاما۔ "اب ہمارے پاس ثبوت ہے۔ اب ہم سردار اعجاز کو بے نقاب کر سکتے ہیں۔"

باب 5: عوامی بیداری

دریا کی مدد سے وہ دونوں بھاگنے میں کامیاب ہو گئے۔ عمران نے کیمرا محفوظ جگہ پر چھپا دیا۔ "اب ہم پولیس کے پاس جائیں گے،" عمران نے کہا۔

نAYRA نے سر ہلایا، "لیکن سردار اعجاز کے پیسے اور اثر و رسوخ کے آگے پولیس بھی کچھ نہیں کر پائے گی۔ ہمیں گاؤں والوں کو اکٹھا کرنا ہوگا۔"

صبح ہوتے ہی سارے گاؤں میں ایک عجیب ہلچل مچ گئی۔ سردار اعجاز کے آدمی ہر طرف پھیل گئے تھے۔ "نAYRA اور عمران نے دریا کو ناپاک کرنے کی کوشش کی ہے!" وہ چلا رہے تھے۔ جھوٹا پروپیگنڈا۔

گاؤں والے الجھن میں پڑ گئے۔ کچھ لوگ نAYRA پر شک کرنے لگے۔ "یہ لڑکی تو ہمیشہ سے عجیب تھی، دریا سے باتیں کرتی تھی۔"

نAYRA کی ماں نے اسے گھر سے باہر نکلتے دیکھا تو پوچھا، "بیٹا، سچ کیا ہے؟"

نAYRA نے ساری کہانی سچی سچی سنائی۔ دریا کی آواز، رات کا واقعہ، سب کچھ۔

ماں نے اسے گلے لگا لیا۔ "میں تم پر یقین رکھتی ہوں۔"

اسی شام، نAYRA اور عمران نے فیصلہ کیا کہ وہ گاؤں کے چوک میں اکٹھے ہوں گے اور سب کے سامنے ثبوت پیش کریں گے۔

جب وہ چوک میں پہنچے تو دیکھا کہ سردار اعجاز اپنے آدمیوں کے ساتھ وہاں پہلے سے موجود تھا۔ "اچھا! یہ ہیں وہ جھوٹے!" وہ چلایا۔

گاؤں والے دونوں طرف تھے۔ کچھ نAYRA کے حق میں، کچھ خاموش۔

عمران نے کیمرا نکالا۔ "ہمارے پاس ثبوت ہے کہ سردار اعجاز دریا کو زہر دے رہا تھا!"

سردار اعجاز قہقہہ لگا کر ہنسا۔ "یہ کیمرا مجھے دے دو!" اس کے آدمی آگے بڑھے۔

اتنے میں ایک بوڑھی آواز گونجی۔ "رکو!"

یہ تھی گاؤں کی سب سے بزرگ خاتون، دادی اماں۔ وہ اپنی لاٹھی ٹیکتی ہوئی آگے بڑھیں۔ "میرے دادا نے کہا تھا، یہ دریا ہماری زندگی ہے۔ نAYRA ہمیشہ سے اس کی حفاظت کرتی آئی ہے۔"

پھر ایک اور آواز آئی۔ "ہاں! میں نے بھی دیکھا ہے سردار کے آدمی دریا میں ڈرم پھینکتے ہوئے!"

یہ تھا گاؤں کا چپڑاسی، جو رات کو گزر رہا تھا۔

یکایک، گاؤں والوں کا پانسا پلٹ گیا۔ "ہم دریا کی حفاظت کریں گے!" انہوں نے نعرہ لگایا۔

سردار اعجاز اور اس کے آدمی پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئے۔

لیکن نAYRA جانتی تھی کہ یہ محض ایک جیت ہے، جنگ نہیں۔ سردار اعجاز ابھی تک طاقتور تھا۔

اس رات، دریا نے اسے آخری پیغام دیا: "اب تمہاری آزمائش شروع ہو رہی ہے..."

باب 6: قانونی جنگ

کچھ ہفتے گزر گئے۔ گاؤں میں ایک نئی رونق تھی۔ دریا صاف ہو چکا تھا اور اس کے کنارے بنے ہوئے چھوٹے سے پارک میں بچے کھیل رہے تھے۔ مگر نAYRA اب بھی دریا کے کنارے بیٹھ کر اس کی باتیں سنتی۔ ایک دن دریا نے اسے بتایا:

"خطرہ ٹلا ہے، مگر ختم نہیں ہوا۔ وہ لوگ واپس آئیں گے۔"

نAYRA نے عمران کو بتایا تو وہ سوچ میں پڑ گیا۔ "سردار اعجاز تو جیل میں ہے، مگر دریا سچ کہہ رہا ہے۔ ہمیں مستقل حل سوچنا ہوگا۔"

اسی شام دونوں نے فیصلہ کیا کہ وہ دریا کو قانونی تحفظ دلائیں گے۔ انہوں نے گاؤں والوں کو اکٹھا کیا۔

دادی اماں نے کہا: "ہم دریا کو اپنی ثقافتی ورثہ قرار دے سکتے ہیں۔"

عمران نے کہا: "ہم نے research کی ہے۔ دریا کو 'زندہ وجود' کے طور پر قانونی حقوق مل سکتے ہیں، جیسے دنیا کے کچھ اور ممالک میں ہوا ہے۔"

گاؤں والے حیران تھے۔ "دریا کو قانونی حقوق؟ یہ کیسے ممکن ہے؟"

نAYRA نے دریا کی طرف دیکھا، پھر سب سے کہا: "اگر دریا ہماری زندگی ہے، تو اسے جینے کا حق کیوں نہیں ہونا چاہیے؟"

اگلے کئی مہینے مصروفیت سے گزرے۔ نAYRA اور عمران نے وکلا سے ملاقاتیں کیں، اخباروں کو interviews دیے۔ ان کی کہانی پورے ملک میں پھیل گئی۔

آخرکار وہ دن آیا جب ہائیکورٹ میں کیس کی سماعت ہوئی۔ سارے گاؤں والے عدالت پہنچے۔

وکیل مخالف نے کہا: "یہ تو بس پانی کا بہاؤ ہے۔ اسے کیسے حقوق مل سکتے ہیں؟"

نAYRA نے گواہی دیتے ہوئے کہا: "دریا ہمارا باپ ہے، ہماری ماں ہے۔ وہ ہمیں پانی دیتا ہے، ہماری فصلیں اگاتا ہے، ہماری روحوں کو سکون دیتا ہے۔ کیا ہم اس کے ساتھ ایسا سلوک کر سکتے ہیں جیسے وہ محض ایک چیز ہو؟"

جج صاحب نے غور سے سنا۔

پھر عمران نے سائنسی ثبوت پیش کیے، دریا کے بغیر ماحولیاتی نظام کے تباہ ہونے کے خطرات بتائے۔

آخرکار فیصلہ سنایا گیا:

"دریا کو زندہ وجود تسلیم کرتے ہوئے، اسے قانونی حقوق دیے جاتے ہیں۔ اب سے کوئی بھی دریا کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ دریا کی نمائندگی نAYRA اور گاؤں کی کمیٹی کرے گی۔"

گاؤں والے خوشی سے نعرے لگانے لگے۔

باب 7: فتح اور نئی شروعات

کئی سال بعد کی بات ہے۔ نAYRA اور عمران اب شادی شدہ تھے اور دریا کے تحفظ کے لیے کام کر رہے تھے۔ ان کا چھوٹا سا بیٹا دریا کے کنارے کھیل رہا تھا۔

بیٹے نے پوچھا: "امی، کیا دریا واقعی باتیں کرتا ہے؟"

نAYRA نے مسکراتے ہوئے کہا: "ہاں بیٹا، مگر وہ صرف انہیں سے بات کرتا ہے جو دِل سے سُننا چاہتے ہیں۔"

اسی وقت دریا کی ایک ہلکی سی لہر کنارے سے آ کر بچے کے پاؤں سے لگ کر واپس چلی گئی، جیسے کوئی پیار سے چھو رہا ہو۔

بیٹا مسکرا دیا۔ "امی! دریا نے مجھے چھوا!"

نAYRA نے عمران کی طرف دیکھا۔ دونوں کی آنکھوں میں وہی پرانی چمک تھی جو سالوں پہلے اسی دریا کے کنارے شروع ہوئی تھی۔

دریا آہستہ سے بول رہا تھا: "تم نے نہ صرف مجھے بچایا، بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے میری آواز قائم رکھی۔ اب میں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں گا۔"

***

مرکزی کردار

نAYRA

عمر: 19 سال

خصوصیات: شرمیلی، حساس، فطرت سے گہرا لگاؤ

صلاحیت: دریا کی زبان سمجھ سکتی ہے

ارتقاء: ڈرتی ہوئی لڑکی سے بہادر رہنما تک

عمران

عمر: 22 سال

خصوصیات: پڑھا لکھا، سائنس داں، عملی سوچ کا مالک

کردار: نAYRA کا دوست اور ساتھی

ارتقاء: شک سے یقین تک کا سفر

سردار اعجاز

عمر: 45 سال

خصوصیات: طاقتور، مادی مفادات کا پجاری

مقصد: دریا کے کنارے فیکٹری قائم کرنا

ارتقاء: ظالم سے شکست خوردہ تک

اہم موضوعات اور پیغامات

فطرت کے ساتھ ہم آہنگی

"ہم فطرت کے مالک نہیں، اس کے محافظ ہیں"

اتحاد کی طاقت

"اکیلے چراغ سے زیادہ مل کر روشنی"

سائنس اور روحانیت کا امتزاج

"عمران کی سائنس اور نAYRA کی روحانیت کا سنگم"

نسلی ذمہ داری

"ہم آنے والی نسلوں کے لیے امین ہیں"

خصوصی اقتباسات

"دریا نے کہا: 'تم میری آنکھیں ہو، تم میری آواز ہو۔ جب تک تم سنو گے، میں بولتا رہوں گا۔'"
"نAYRA نے کہا: 'ہم دریا کو نہیں بچا رہے، دریا ہمیں بچا رہا ہے۔'"
"عدالت کا فیصلہ: 'فطرت کوئی مشین نہیں جو چلتی رہے، یہ ایک زندہ وجود ہے جسے محبت چاہیے۔'"

آخری پیغام

"یہ کہانی صرف ایک لڑکی اور دریا کی داستان نہیں، یہ ہم سب کی کہانی ہے۔ ہم سب کے اندر ایک نAYRA ہے جو فطرت سے باتیں کرنا چاہتی ہے۔ ہم سب کے پاس ایک عمران ہے جو سچائی کی تلاش میں ہے۔ اور ہمارے اردگرد ایسے ہی دریا ہیں جو ہماری سننا چاہتے ہیں۔"

Mega Movies Hub - 500+ Dual Audio Movies & Web Series

Mega Movies Hub

500+ Dual Audio Movies & Web Series - All in One Place

Loading movies...
🔄 Loading movies, please wait...