مکمل کہانی
باب 1: پہلی سرگوشی
سورج ڈھل رہا تھا اور دریا کی لہروں پر سنہری روشنی بکھر رہی تھی۔ نAYRA اپنی پسندیدہ چٹان پر بیٹھی، آنکھیں بند کیے، صرف سن رہی تھی۔ عام دنوں میں دریا کچھ یوں بولتا تھا، "شhhhhhhhh... شhhhhhh..." ایک مسلسل، سکون بخش دھن، جیسے کوئی ماں اپنے بچے کو سلانے کے لیے لوری دے رہی ہو۔
مگر آج... کچھ مختلف تھا۔ دریا کی سرگوشی میں ایک کھردرا پن تھا۔ ایک بے چینی۔ لہروں کی آواز میں وہ شِیرینی نہیں تھی، بلکہ ایک دبے ہوئے درد کی سی کھنک تھی، جیسے کوئی زخمی جانور آہستہ سے کراہ رہا ہو۔
نAYRA نے آنکھیں کھولیں۔ اس کی بھنویں سکیڑی گئیں۔ اس نے دریا کے پانی کو غور سے دیکھا۔ ظاہری طور پر سب کچھ ویسا ہی تھا۔ صاف، نیلگوں پانی جو کناروں پر جھاگ سا بناتا ہوا بہہ جا رہا تھا۔ پرندے آوازیں دے رہے تھے اور دور کھیتوں میں ہل چل رہا تھا۔
پھر اچانک، ایک تیز ہوا کا جھونکا آیا، اور دریا کی آواز اس کے کانوں میں صاف گونجی، "دیکھ... دیکھ اندر... دیکھ میرے اندر..."
یہ الفاظ نہیں تھے، یہ ایک احساس تھا۔ ایک فوری، زبردست پیغام جو اس کے دل و دماغ میں اتر گیا۔ اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔
اس نے جھٹ سے اپنا ہاتھ بڑھایا اور پانی میں ڈبو دیا۔ عام دنوں کی طرح پانی کی ٹھنڈک نے اس کی کلائی کو چھوا، مگر آج اس ٹھنڈک میں ایک عجیب سی کڑواہٹ چھپی ہوئی تھی، جیسے کسی نے تازہ پانی میں زہر کی ایک بوند ملا دی ہو۔
اس نے ہاتھ باہر نکالا اور انگلیاں اکٹھی کر کے مل کر دیکھا۔ پانی کے قطرے اس کی انگلیوں سے ٹپک رہے تھے، مگر ان میں سے ایک عجیب بو آ رہی تھی... دھاتی اور تیز۔
"یہ کیا ہے؟" اس نے اپنے آپ سے پوچھا، اس کی آواز میں حیرت اور ڈونٹھا تھا۔
"خطرہ..." دریا کی آواز ایک بار پھر اس کے ذہن میں گونجی، مدھم مگر صاف، "وہ آ رہے ہیں... میری روح کو مارنے..."
نAYRA کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ یہ پہلی بار نہیں تھا جب دریا نے اس سے بات کی تھی، مگر اتنا واضح، اتنا ڈراؤنا پیغام پہلی بار تھا۔ وہ اٹھی، اس کے پاؤں لڑکھڑا رہے تھے۔ اس نے دریا کی طرف ایک آخری نظر ڈالی، جو اب بے چین لہروں کے ساتھ بہہ رہا تھا، جیسے اسے جلد سے جلد کوئی بات کہنی ہو۔
وہ چٹان سے اتر کر کنارے پر کھڑی ہو گئی۔ گاؤں کی طرف جانے والی پگڈنڈی پر اس کی نظر پڑی۔ وہاں، دور، گرد کا ایک بادل اٹھ رہا تھا۔ کوئی گاڑی آ رہی تھی۔ ایک بڑی، شاندار گاڑی، جیسی اس کے چھوٹے سے گاؤں میں کبھی کبھار ہی دیکھنے کو ملتی تھی۔
دریا کی آواز ایک بار پھر پہنچی، اب بس ایک ہی لفظ: "وہ..."
باب 2: تحقیق اور دریافت
بس دریا کا پیغام ملتے ہی نAYRA نے فوراً عمران کو فون کیا۔ "عمران! دریا نے بتایا ہے... آج رات وہ زہر لے کر آ رہے ہیں!"
عمران کی آواز میں نیند تھی، مگر وہ فوراً جاگ گیا۔ "کہاں؟ کب؟"
"آدھی رات کو، جب چاند سب سے اونچا ہو۔ دریا کے اس حصے میں جہاں پرانا ویران گودام ہے۔"
"ٹھیک ہے،" عمران نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔ "ہم انہیں red-handed پکڑیں گے۔ میں اپنا camera لیتا ہوں۔ night vision والا۔ evidence کے لیے ضروری ہے۔"
رات کے پچھلے پہر، دونوں دریا کے کنارے ویرانے گودام کے پیچھے چھپ گئے۔ ہوا میں ایک سنسناہٹ تھی۔ دریا آہستہ آہستہ بول رہا تھا، "آ رہے ہیں... آ رہے ہیں..."
پھر دور سے ہیڈلائٹس نظر آئے۔ ایک وین آ رہی تھی۔ وہ گودام کے سامنے رکی۔ تین آدمی اترے۔ انہوں نے ڈرم نکالے۔ زہریلے کیمیکلز کے ڈرم۔
"جلدی کرو،" ایک آواز گونجی۔ "سردار صاحب نے کہا ہے آج کا کام پورا کرنا ہے۔"
عمران نے camera چلا دیا۔ record ہو رہا تھا۔
اسی لمحے، نAYRA کا پاؤں ایک خشہ پتے پر پڑا۔ C R U N C H!
آواز سن کر وہ تینوں آدمی چوکنا ہو گئے۔ "کون ہے وہاں؟!"
ایک نے ٹارچ جلائی۔ روشنی سیدھی نAYRA اور عمران پر پڑی۔
"اوہ! وہی دو نوکری چور!" ان میں سے ایک چلایا۔ "پکڑو انہیں!"
نAYRA اور عمران نے بھاگنے کی کوشش کی، مگر وہ تینوں آدمی تیزی سے ان کی طرف بڑھے۔
"Camera دے دو!" ایک نے غصے سے کہا۔
عمران نے camera پیچھے ہاتھ میں چھپا لیا۔ "نہیں دے سکتا!"
ایک آدمی نے نAYRA کا ہاتھ پکڑ لیا۔ "تمہیں پتہ ہے تم کس کے راستے میں روڑے اٹکا رہی ہو؟"
اسی لمحے... دریا میں ایک عجیب ہلچل پیدا ہوئی۔ اچانک ایک بڑی لہر اٹھی اور کنارے سے ٹکرائی، ان تینوں آدمیوں کو پانی میں گرا دیا۔
"بچو! بچو!" وہ چلائے۔
نAYRA اور عمران نے موقع دیکھا اور بھاگ کھڑے ہوئے۔ ان کے ہاتھوں میں camera تھا۔ evidence تھا۔ ثبوت تھا۔
دور بھاگتے ہوئے، نAYRA نے مڑ کر دیکھا۔ دریا کے پانی میں وہ تینوں آدمی تیر رہے تھے، اور ڈرم کنارے پر پڑے تھے۔ زہر کا ڈرم ابھی تک دریا میں نہیں گرا تھا۔
وہ سانس اندر کھینچتے ہوئے بولی، "دریا نے ہماری مدد کی..."
عمران نے camera مضبوطی سے تھاما۔ "اب ہمارے پاس ثبوت ہے۔ اب ہم سردار اعجاز کو بے نقاب کر سکتے ہیں۔"
باب 3: پہلا تصادم
گاڑی کا دروازہ کھلا اور ایک درمیانی عمر کا مرد باہر نکلا۔ وہ ایک ستلی ہوئے سفید سوٹ میں ملبوس تھا۔ اس کے چہرے پر ایک مصنوعی مسکراہٹ تھی، مگر آنکھیں بلکل بے رحم تھیں۔
"سلام علیکم،" اس نے میٹھی آواز میں کہا۔ "میں ہوں سردار اعجاز۔ اور تم ہی... نAYRA؟ تمہارے بارے میں سنا ہے۔ دریا کی دوست۔"
نAYRA نے عمران کی طرف دیکھا۔ اس کے ہاتھ میں پانی کا sample تھا، جو اب خطرے کی واضح نشانی بن چکا تھا۔
سردار اعجاز نے ان کے ہاتھوں میں test kits دیکھے۔ اس کی مسکراہٹ اور بھی مصنوعی ہو گئی۔
"اوہ، کیا بات ہے! ہمارے نوجوان سائنس دان؟" اس نے طنز کیا۔ "پانی کی جانچ؟ بہت اچھا۔ ویسے، میں یہاں ایک اچھی خبر لے کر آیا ہوں۔ ہم اس علاقے میں ترقی کا ایک بہت بڑا منصوبہ لانے والے ہیں۔ نوکریاں۔ سہولیات۔"
اس نے دریا کی طرف اشارہ کیا۔ "یہ دریا... یہ تو بس پانی ہے۔ ترقی کے لیے کچھ قربانیاں تو دینی پڑتی ہیں۔"
اسی لمحے، دریا کی ایک تیز لہر کنارے سے ٹکرائی، جیسے غصے کا اظہار کر رہی ہو۔
سردار اعجاز نے پیچھے ہٹتے ہوئے کہا، "تم نوجوانوں کو سمجھنا چاہیے۔ راستے میں مت کھڑے ہو۔"
یہ کہہ کر وہ گاڑی میں واپس بیٹھ گیا اور چلا گیا۔
عمران نے نAYRA کی طرف دیکھا۔ "یہ تو محض شروعات ہے۔ ہمیں مزید ثبوت چاہیں۔"
رات گئے، نAYRA اپنے کمرے میں بیٹھی دریا کی آواز پر غور کر رہی تھی۔ اچانک دریا نے اسے ایک نیا پیغام دیا:
"کل رات... جب چاند آسمان پر ہو... وہ زہر کی پہلی کھیپ لائیں گے..."
نAYRA کی آنکھوں میں ایک نیا عزم چمکا۔ اب وہ جانتی تھی کہ انہیں کب اور کہاں حملے کا انتظار کرنا ہے۔
باب 4: رات کا معرکہ
بس دریا کا پیغام ملتے ہی نAYRA نے فوراً عمران کو فون کیا۔ "عمران! دریا نے بتایا ہے... آج رات وہ زہر لے کر آ رہے ہیں!"
عمران کی آواز میں نیند تھی، مگر وہ فوراً جاگ گیا۔ "کہاں؟ کب؟"
"آدھی رات کو، جب چاند سب سے اونچا ہو۔ دریا کے اس حصے میں جہاں پرانا ویران گودام ہے۔"
"ٹھیک ہے،" عمران نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔ "ہم انہیں red-handed پکڑیں گے۔ میں اپنا camera لیتا ہوں۔ night vision والا۔ evidence کے لیے ضروری ہے۔"
رات کے پچھلے پہر، دونوں دریا کے کنارے ویرانے گودام کے پیچھے چھپ گئے۔ ہوا میں ایک سنسناہٹ تھی۔ دریا آہستہ آہستہ بول رہا تھا، "آ رہے ہیں... آ رہے ہیں..."
پھر دور سے ہیڈلائٹس نظر آئے۔ ایک وین آ رہی تھی۔ وہ گودام کے سامنے رکی۔ تین آدمی اترے۔ انہوں نے ڈرم نکالے۔ زہریلے کیمیکلز کے ڈرم۔
"جلدی کرو،" ایک آواز گونجی۔ "سردار صاحب نے کہا ہے آج کا کام پورا کرنا ہے۔"
عمران نے camera چلا دیا۔ record ہو رہا تھا۔
اسی لمحے، نAYRA کا پاؤں ایک خشہ پتے پر پڑا۔ C R U N C H!
آواز سن کر وہ تینوں آدمی چوکنا ہو گئے۔ "کون ہے وہاں؟!"
ایک نے ٹارچ جلائی۔ روشنی سیدھی نAYRA اور عمران پر پڑی۔
"اوہ! وہی دو نوکری چور!" ان میں سے ایک چلایا۔ "پکڑو انہیں!"
نAYRA اور عمران نے بھاگنے کی کوشش کی، مگر وہ تینوں آدمی تیزی سے ان کی طرف بڑھے۔
"Camera دے دو!" ایک نے غصے سے کہا۔
عمران نے camera پیچھے ہاتھ میں چھپا لیا۔ "نہیں دے سکتا!"
ایک آدمی نے نAYRA کا ہاتھ پکڑ لیا۔ "تمہیں پتہ ہے تم کس کے راستے میں روڑے اٹکا رہی ہو؟"
اسی لمحے... دریا میں ایک عجیب ہلچل پیدا ہوئی۔ اچانک ایک بڑی لہر اٹھی اور کنارے سے ٹکرائی، ان تینوں آدمیوں کو پانی میں گرا دیا۔
"بچو! بچو!" وہ چلائے۔
نAYRA اور عمران نے موقع دیکھا اور بھاگ کھڑے ہوئے۔ ان کے ہاتھوں میں camera تھا۔ evidence تھا۔ ثبوت تھا۔
دور بھاگتے ہوئے، نAYRA نے مڑ کر دیکھا۔ دریا کے پانی میں وہ تینوں آدمی تیر رہے تھے، اور ڈرم کنارے پر پڑے تھے۔ زہر کا ڈرم ابھی تک دریا میں نہیں گرا تھا۔
وہ سانس اندر کھینچتے ہوئے بولی، "دریا نے ہماری مدد کی..."
عمران نے camera مضبوطی سے تھاما۔ "اب ہمارے پاس ثبوت ہے۔ اب ہم سردار اعجاز کو بے نقاب کر سکتے ہیں۔"
باب 5: عوامی بیداری
دریا کی مدد سے وہ دونوں بھاگنے میں کامیاب ہو گئے۔ عمران نے کیمرا محفوظ جگہ پر چھپا دیا۔ "اب ہم پولیس کے پاس جائیں گے،" عمران نے کہا۔
نAYRA نے سر ہلایا، "لیکن سردار اعجاز کے پیسے اور اثر و رسوخ کے آگے پولیس بھی کچھ نہیں کر پائے گی۔ ہمیں گاؤں والوں کو اکٹھا کرنا ہوگا۔"
صبح ہوتے ہی سارے گاؤں میں ایک عجیب ہلچل مچ گئی۔ سردار اعجاز کے آدمی ہر طرف پھیل گئے تھے۔ "نAYRA اور عمران نے دریا کو ناپاک کرنے کی کوشش کی ہے!" وہ چلا رہے تھے۔ جھوٹا پروپیگنڈا۔
گاؤں والے الجھن میں پڑ گئے۔ کچھ لوگ نAYRA پر شک کرنے لگے۔ "یہ لڑکی تو ہمیشہ سے عجیب تھی، دریا سے باتیں کرتی تھی۔"
نAYRA کی ماں نے اسے گھر سے باہر نکلتے دیکھا تو پوچھا، "بیٹا، سچ کیا ہے؟"
نAYRA نے ساری کہانی سچی سچی سنائی۔ دریا کی آواز، رات کا واقعہ، سب کچھ۔
ماں نے اسے گلے لگا لیا۔ "میں تم پر یقین رکھتی ہوں۔"
اسی شام، نAYRA اور عمران نے فیصلہ کیا کہ وہ گاؤں کے چوک میں اکٹھے ہوں گے اور سب کے سامنے ثبوت پیش کریں گے۔
جب وہ چوک میں پہنچے تو دیکھا کہ سردار اعجاز اپنے آدمیوں کے ساتھ وہاں پہلے سے موجود تھا۔ "اچھا! یہ ہیں وہ جھوٹے!" وہ چلایا۔
گاؤں والے دونوں طرف تھے۔ کچھ نAYRA کے حق میں، کچھ خاموش۔
عمران نے کیمرا نکالا۔ "ہمارے پاس ثبوت ہے کہ سردار اعجاز دریا کو زہر دے رہا تھا!"
سردار اعجاز قہقہہ لگا کر ہنسا۔ "یہ کیمرا مجھے دے دو!" اس کے آدمی آگے بڑھے۔
اتنے میں ایک بوڑھی آواز گونجی۔ "رکو!"
یہ تھی گاؤں کی سب سے بزرگ خاتون، دادی اماں۔ وہ اپنی لاٹھی ٹیکتی ہوئی آگے بڑھیں۔ "میرے دادا نے کہا تھا، یہ دریا ہماری زندگی ہے۔ نAYRA ہمیشہ سے اس کی حفاظت کرتی آئی ہے۔"
پھر ایک اور آواز آئی۔ "ہاں! میں نے بھی دیکھا ہے سردار کے آدمی دریا میں ڈرم پھینکتے ہوئے!"
یہ تھا گاؤں کا چپڑاسی، جو رات کو گزر رہا تھا۔
یکایک، گاؤں والوں کا پانسا پلٹ گیا۔ "ہم دریا کی حفاظت کریں گے!" انہوں نے نعرہ لگایا۔
سردار اعجاز اور اس کے آدمی پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئے۔
لیکن نAYRA جانتی تھی کہ یہ محض ایک جیت ہے، جنگ نہیں۔ سردار اعجاز ابھی تک طاقتور تھا۔
اس رات، دریا نے اسے آخری پیغام دیا: "اب تمہاری آزمائش شروع ہو رہی ہے..."
باب 6: قانونی جنگ
کچھ ہفتے گزر گئے۔ گاؤں میں ایک نئی رونق تھی۔ دریا صاف ہو چکا تھا اور اس کے کنارے بنے ہوئے چھوٹے سے پارک میں بچے کھیل رہے تھے۔ مگر نAYRA اب بھی دریا کے کنارے بیٹھ کر اس کی باتیں سنتی۔ ایک دن دریا نے اسے بتایا:
"خطرہ ٹلا ہے، مگر ختم نہیں ہوا۔ وہ لوگ واپس آئیں گے۔"
نAYRA نے عمران کو بتایا تو وہ سوچ میں پڑ گیا۔ "سردار اعجاز تو جیل میں ہے، مگر دریا سچ کہہ رہا ہے۔ ہمیں مستقل حل سوچنا ہوگا۔"
اسی شام دونوں نے فیصلہ کیا کہ وہ دریا کو قانونی تحفظ دلائیں گے۔ انہوں نے گاؤں والوں کو اکٹھا کیا۔
دادی اماں نے کہا: "ہم دریا کو اپنی ثقافتی ورثہ قرار دے سکتے ہیں۔"
عمران نے کہا: "ہم نے research کی ہے۔ دریا کو 'زندہ وجود' کے طور پر قانونی حقوق مل سکتے ہیں، جیسے دنیا کے کچھ اور ممالک میں ہوا ہے۔"
گاؤں والے حیران تھے۔ "دریا کو قانونی حقوق؟ یہ کیسے ممکن ہے؟"
نAYRA نے دریا کی طرف دیکھا، پھر سب سے کہا: "اگر دریا ہماری زندگی ہے، تو اسے جینے کا حق کیوں نہیں ہونا چاہیے؟"
اگلے کئی مہینے مصروفیت سے گزرے۔ نAYRA اور عمران نے وکلا سے ملاقاتیں کیں، اخباروں کو interviews دیے۔ ان کی کہانی پورے ملک میں پھیل گئی۔
آخرکار وہ دن آیا جب ہائیکورٹ میں کیس کی سماعت ہوئی۔ سارے گاؤں والے عدالت پہنچے۔
وکیل مخالف نے کہا: "یہ تو بس پانی کا بہاؤ ہے۔ اسے کیسے حقوق مل سکتے ہیں؟"
نAYRA نے گواہی دیتے ہوئے کہا: "دریا ہمارا باپ ہے، ہماری ماں ہے۔ وہ ہمیں پانی دیتا ہے، ہماری فصلیں اگاتا ہے، ہماری روحوں کو سکون دیتا ہے۔ کیا ہم اس کے ساتھ ایسا سلوک کر سکتے ہیں جیسے وہ محض ایک چیز ہو؟"
جج صاحب نے غور سے سنا۔
پھر عمران نے سائنسی ثبوت پیش کیے، دریا کے بغیر ماحولیاتی نظام کے تباہ ہونے کے خطرات بتائے۔
آخرکار فیصلہ سنایا گیا:
"دریا کو زندہ وجود تسلیم کرتے ہوئے، اسے قانونی حقوق دیے جاتے ہیں۔ اب سے کوئی بھی دریا کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ دریا کی نمائندگی نAYRA اور گاؤں کی کمیٹی کرے گی۔"
گاؤں والے خوشی سے نعرے لگانے لگے۔
باب 7: فتح اور نئی شروعات
کئی سال بعد کی بات ہے۔ نAYRA اور عمران اب شادی شدہ تھے اور دریا کے تحفظ کے لیے کام کر رہے تھے۔ ان کا چھوٹا سا بیٹا دریا کے کنارے کھیل رہا تھا۔
بیٹے نے پوچھا: "امی، کیا دریا واقعی باتیں کرتا ہے؟"
نAYRA نے مسکراتے ہوئے کہا: "ہاں بیٹا، مگر وہ صرف انہیں سے بات کرتا ہے جو دِل سے سُننا چاہتے ہیں۔"
اسی وقت دریا کی ایک ہلکی سی لہر کنارے سے آ کر بچے کے پاؤں سے لگ کر واپس چلی گئی، جیسے کوئی پیار سے چھو رہا ہو۔
بیٹا مسکرا دیا۔ "امی! دریا نے مجھے چھوا!"
نAYRA نے عمران کی طرف دیکھا۔ دونوں کی آنکھوں میں وہی پرانی چمک تھی جو سالوں پہلے اسی دریا کے کنارے شروع ہوئی تھی۔
دریا آہستہ سے بول رہا تھا: "تم نے نہ صرف مجھے بچایا، بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے میری آواز قائم رکھی۔ اب میں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں گا۔"
***
مرکزی کردار
نAYRA
عمر: 19 سال
خصوصیات: شرمیلی، حساس، فطرت سے گہرا لگاؤ
صلاحیت: دریا کی زبان سمجھ سکتی ہے
ارتقاء: ڈرتی ہوئی لڑکی سے بہادر رہنما تک
عمران
عمر: 22 سال
خصوصیات: پڑھا لکھا، سائنس داں، عملی سوچ کا مالک
کردار: نAYRA کا دوست اور ساتھی
ارتقاء: شک سے یقین تک کا سفر
سردار اعجاز
عمر: 45 سال
خصوصیات: طاقتور، مادی مفادات کا پجاری
مقصد: دریا کے کنارے فیکٹری قائم کرنا
ارتقاء: ظالم سے شکست خوردہ تک
اہم موضوعات اور پیغامات
فطرت کے ساتھ ہم آہنگی
"ہم فطرت کے مالک نہیں، اس کے محافظ ہیں"
اتحاد کی طاقت
"اکیلے چراغ سے زیادہ مل کر روشنی"
سائنس اور روحانیت کا امتزاج
"عمران کی سائنس اور نAYRA کی روحانیت کا سنگم"
نسلی ذمہ داری
"ہم آنے والی نسلوں کے لیے امین ہیں"
خصوصی اقتباسات
"دریا نے کہا: 'تم میری آنکھیں ہو، تم میری آواز ہو۔ جب تک تم سنو گے، میں بولتا رہوں گا۔'"
"نAYRA نے کہا: 'ہم دریا کو نہیں بچا رہے، دریا ہمیں بچا رہا ہے۔'"
"عدالت کا فیصلہ: 'فطرت کوئی مشین نہیں جو چلتی رہے، یہ ایک زندہ وجود ہے جسے محبت چاہیے۔'"
آخری پیغام
"یہ کہانی صرف ایک لڑکی اور دریا کی داستان نہیں، یہ ہم سب کی کہانی ہے۔ ہم سب کے اندر ایک نAYRA ہے جو فطرت سے باتیں کرنا چاہتی ہے۔ ہم سب کے پاس ایک عمران ہے جو سچائی کی تلاش میں ہے۔ اور ہمارے اردگرد ایسے ہی دریا ہیں جو ہماری سننا چاہتے ہیں۔"