سہانی اور ماہی وال
تاریخی اور جغرافیائی پس منظر
سہانی اور ماہی وال کی یہ عشقیہ داستان سترہویں صدی کے پنجاب کے خطے میں پروان چڑھی، جب مغلیہ سلطنت اپنے عروج پر تھی اور پنجاب کی ثقافت و تہذیب اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ فروغ پا رہی تھی۔
یہ واقعہ موجودہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع گوجرانوالہ کے قریب دریائے چناب کے کنارے آباد ایک چھوٹے سے گاؤں "پنڈ بھگتاں" میں پیش آیا۔ اس وقت کا پنجاب کا معاشرہ قبائلی روایات، ذات پات کے امتیازات اور خاندانی شرافت پر مبنی تھا۔
مرکزی کردار
سہانی
- کمہار خاندان سے تعلق
- عمر: سترہ سال
- مٹی کے برتن بنانے کی ماہر
- نہایت خوبصورت اور ہنرمند
- گاؤں کی سب سے حسین لڑکی
- قد: پانچ فٹ پانچ انچ
ماہی وال
- مچھیرے خاندان سے تعلق
- عمر: بائیس سال
- مچھلیاں بیچ کر گزارا
- محنتی اور ایماندار
- خوش شکل اور ملنسار
- قد: پانچ فٹ آٹھ انچ
پہلی ملاقات
ایک صبح کی بات ہے، سہانی اپنے گھر کے آنگن میں مٹی کے برتن بنا رہی تھی۔ اچانک اس کے کانوں میں ایک میٹھی آواز پڑی:
سہانی نے دروازے سے جھانک کر دیکھا تو ایک خوبصورت نوجوان ٹوکری لیے کھڑا تھا۔ اس کی آنکھوں میں چمک تھی اور چہرے پر مسکراہٹ۔
ماہی وال: "آپ کے لیے خاص دام ہیں بی بی!"
یہ پہلی ملاقات تھی جو دونوں کے دلوں میں محبت کا بیج بو گئی۔ نظروں کے تبادلے نے ایک ایسا رشتہ قائم کر دیا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مضبوط ہوتا چلا گیا۔
محبت کا ارتقاء
اس پہلی ملاقات کے بعد ماہی وال ہر روز سہانی کے گاؤں آنے لگا۔ محبت کا سفر مرحلہ وار پروان چڑھا:
ہر ملاقات میں محبت گہری ہوتی گئی، ہر نظر میں پیار بڑھتا گیا، ہر بات میں خلوص نمایاں ہوتا گیا۔ وہ دریا کے کنارے بیٹھ کر اپنے خواب سناتے، اپنی امیدیں بیان کرتے، اور ایک دوسرے کے دلوں میں گھر کرتے چلے گئے۔
خاندانی مخالفت
جیسے جیسے سہانی اور ماہی وال کی ملاقاتیں باقاعدہ ہوتی گئیں، گاؤں میں چرچے پھیلنے لگے۔ سہانی کے بھائیوں کو شک ہوا اور انہوں نے چھپ کر جاسوسی شروع کی۔
سخت اقدامات:
- سہانی کو گھر میں قید کر دیا گیا
- کمرے کی کھڑکیاں بند کر دی گئیں
- دروازے پر تالے لگا دیے گئے
- ماہی وال پر گاؤں میں آنے کی پابندی
- دھمکیاں اور دباؤ
سہانی کے بھائیوں نے اسے ڈانٹا، سمجھایا، حتیٰ کہ دھمکیاں بھی دیں۔ لیکن سہانی کے دل میں تو ماہی وال کے لیے محبت کے سوا کچھ نہ تھا۔
دریا کنارے ترکیب
قید و بند کی صعوبتوں کے باوجود سہانی نے ہمت نہ ہاری۔ اس نے ایک ترکیب سوچی:
ترکیب کا طریقہ کار:
- دریا کے کنارے ایک خاص جگہ منتخب کی گئی
- بڑے پتھر کے پیچھے گھڑا رکھنے کا مقام
- سرخ مٹی کا گھڑا، پھولوں سے سجاوٹ
- گھڑا دیکھ کر ملاقات کا اشارہ
- سہانی صبح سویرے گھڑا رکھتی
- ماہی وال دوپہر کو آتا اور گھڑا دیکھتا
یہ ترکیب کامیاب رہی اور دونوں اس طریقے سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ سلسلہ مہینوں تک چلتا رہا، ہر ملاقات میں ان کی محبت گہری ہوتی گئی۔
طوفانی رات کا المیہ
یہ وہ قیامت خیز رات تھی جو تاریخ 15 جولائی 1650 کو آئی۔ موسم انتہائی خراب تھا:
ماہی وال نے طوفان کی پروا نہ کرتے ہوئے سہانی سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ وہ رات سات بجے اپنے گھر سے نکلا، جنگل کے راستے سے ہوتا ہوا دریا کنارے پہنچا۔
اس نے دریا پار کرنے کی کوشش کی مگر تیز بہاؤ نے اسے بہا لیا۔ ادھر سہانی بے چین ہو کر رات ساڑھے آٹھ بجے دریا کنارے پہنچی۔ اس نے دریا کو طغیانی پر دیکھا، ماہی وال کو کہیں نہ پایا، پھر اسے دریا کے کنارے ماہی وال کی چپل ملی۔ چپل دیکھتے ہی اس کا دل ٹوٹ گیا۔
یہ کہہ کر اس نے دریا میں چھلانگ لگا دی اور اپنے محبوب کے ساتھ ہمیشہ کے لیے جا ملی۔
داستان کا ورثہ
صبح ہوئی تو گاؤں والوں کو پتہ چلا کہ کیا ہوا ہے۔ سب حیران رہ گئے، ہر کسی نے ان کی محبت کو سلام کیا، لوگوں نے ان کی قربانی کو سراہا۔
دو دلاں دی محبت نوں، ویراں نے ویرانی اے"
یہ کہانی نہ صرف محبت کی لازوال داستان ہے بلکہ سماجی امتیازات کے خلاف ایک زبردست احتجاج بھی ہے، جو ہمیں سکھاتی ہے کہ سچی محبت ہر رکاوٹ کو توڑ دیتی ہے، قربانیاں محبت کو امر کر دیتی ہیں، اور موت کے بعد بھی محبت زندہ رہتی ہے۔
سہانی اور ماہی وال کی محبت آج بھی دریا کی لہروں میں بسی ہوئی ہے، اور ان کی داستان پنجابی ثقافت کا ایک لازوال حصہ بن چکی ہے۔

EmoticonEmoticon