New Novel Of 2022 The journey from love to reality 🤫🤫🤫🤫🤫episode #8

 

















محبت سے حقیقت کا سفر

رائٹر
سدرہ یاسین

#8قسط نمبر 


ماہ نور نم آنکھوں سے ماں کی طرف دیکھنے لگی،اچھا خالہ میں اب چلتی ہوں،ارے تانیہ بیٹی ناشتہ کر کے چلی جاتی،ابھی تو آئی ہو،پتہ نہیں آج کل کے بچوں کو کس چیز کی جلدی رہتی،نہیں خالہ کوئی جلدی نہیں بس پھر آتی ہوں،اچھا اپنی اماں کو میرا سلام کہنا،تانیہ جیسے معاملے کو مزید ہوا نہیں دینا چاہتی تھی،اس وجہ سے جلدی ہی وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئی،ورنہ اس کی اور ماہ نور کی باتیں تو کبھی ختم ہوتیں ہی نہیں تھیں،
امی،مجھے پڑھنا ہے پلیز امی میرے ساتھ یہ ظلم نا کریں میں اپنی تعلیم نہیں چھوڑنا چاہتی،خدا کا واسطہ ہے آپ کو،ہاں بھئی صبح صبح کیا باتیں ہو رہی ہیں دونوں ماں بیٹی میں،بابا؛بابا دیکھیں نا امی،امی مجھے آگے پڑھنے سے روک رہی ہیں،پلیز بابا مجھے پڑھنا ہے
🔥
سلطان صاحب کمرے کے پاس سے گزر رہے تھے کہ ان دونوں کی باتیں بھانپ کر اندر چلے آئے،
ارے کس نے کہا میری بیٹی آگے نہیں پڑھ سکتی؟اور کیوں!بھئی،،ماہ نور بیٹا تم نے جتنا پڑھنا ہے پڑھ سکتی ہو،اور ہاں نبیلہ،ایک بات کان کھول کر سن لو،آئیندہ سے اس بات کا ذکر نہیں ہونا چاہئے گھر پر،باہر والوں کی باتیں کیا کم ہیں جو تم سب اس ایک ہی بات کو بار بار گھر میں بھی دوہراتے رہتے ہو،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کو میرے بھائیوں کو عدالتوں میں نہیں گھسیٹنا چاہیئے تھا،عیشا کے ابو!
رابعہ کے اندر خاندان کا خون گردش کر رہا تھا اور بھائیوں پر شوہر کی طرف سے کے گئے کیس کے متعلق جبار کو ڈھکے چھپے لفظوں میں کیس واپس لینے کا مشورہ دے رہی تھی،کچھ بھی ہو دو بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی اور تینوں بہن بھائیوں کا آپس میں بہت پیار خلوص رہا تھا پر اب درمیان میں کہیں سے یہ زمین اور دولت آگئی تھی،تمہیں کچھ نہیں پتہ رابعہ پہلے یہ حصہ لینا ہمارے لیے ضروری تھا لیکن اب یہ میرے لئے مجبوری بن چکی ہے ،گھر میں پڑے اپنے نوجوان بیٹے کا علاج کہاں سے کرواوں میں؟دو ماہ ہونے کو آۓ ہیں،میرے پاس جو رقم تھی وہ میں لگا چکا ہوں اور اب ڈاکٹر کہتے ہیں آپریشن کے لیے باہر کے ملک لے جانا ہوگا،کاروبار بھی نفی میں چل رہا ہے،سب الٹ پلٹ ہو گیا ہے،کیا سوچا تھا اور کیا ہو گیا ہے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آرہا،جبار بیوی کے سامنے باری باری سارے مسئلے رکھتا جا رہا تھا اور رابعہ بھی غور سے سب سن رہی تھی اور بدلے میں ہاں ہممم کے علاوہ کوئی الفاظ اس سے نہیں بن پا رہے تھے،
۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امی آپ کو پتہ ہے؟نیلم نے مجھے بتایا کہ سلطان چاچو نے ماہ نور آپی کو دوبارہ کالج جانے اور پڑھنے کو کہہ دیا ہے،
ارم ہمیشہ کی طرح ہر خبر ماں تک پہنچانے کی روایت برقرار رکھتے ہوئے نسرین بیگم کو بتا رہی تھی کہ اتنے میں سکندر صاحب بھی اخبار ہاتھ میں لیے صحن میں پڑی چارپائی پہ آبیھٹے جو کی ان کرسیوں سے قدرے   فاصلے پر پڑی تھی جن پر نسرین اور ارم بیٹھی باتیں بھنگار رہی تھیں ,
سن رہے ہیں اپنے لاڈلے بھائی کے ابھی بھی اپنی بد چلن بیٹیوں سے لاڈ پیار کے قصے،ابھی بھی ان کو اجازت دی جا رہی ہے کے جاؤ اور لڑکوں میں بیٹھ کر پڑھائیاں کرو،نا کونسی قیامت آ جائے گی کہ سلطان کی بیٹیاں تھوڑی سی کم پڑھی لکھی رہ گئیں تو،یہ تو چلو اپنے گھر کا لڑکا تھا یاسر جو اس نے آپ کے حوالے کیا ماہ نور کو،بتائیں ذرہ اگر باہر کے کسی لڑکے کے ساتھ مل کر یہ گل کھلاتی وہ تو،نتیجہ کیا نکلنا تھا؟گھر سے بھاگی ہوئی لڑکیوں کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوتا؛نسرین مسلسل بول رہی تھی اور سکندر تایا سے اب اور برداشت نہیں ہو رہی تھیں،بس کر دو نسرین جس کالج میں ماہ نور پڑھتی ہے،ہماری ارم بھی تو وہیں پڑھ رہی ہے،کیا اس کی دفعہ اس کالج میں لڑکے نہیں ہوتے؟باپ کی یہ بات سنتے ہی پاس بیٹھی ارم کے چہرے کا رنگ ایک دم سے ہلدی مائل ہوگیا،اور ہاں،، اگر یاسر گھر کا بچہ ہوتا یا جبار اور رابعہ ہمارے سگے ہوتے تو صورتحال ہرگز یہ نا ہوتی،ارم!خیالوں میں گم سم بیٹھی ارم اچانک سے باپ کی آواز کانوں میں پڑنے سے چونکی تھی،ارم تم پریشان نا ہوا کرو بیٹا اور نہ ہی چھوٹی چھوٹی باتیں اپنی ماں کو بتایا کرو،جاو اور میرے لیے ایک کپ چائے بنا کر لاؤ،جی جی ابو
ارم کے لہجے میں کپکپاہٹ سی تھی اور وہ اٹھ کر کچن کی طرف جانے لگی تھی کے سکندر نے پھر اسے آواز دے کر رکنے کو کہا'آئندہ تم اور ماہ نور دونوں ساتھ ساتھ جایا کرو گی کالج اور اس سے زیادہ تمہیں اپنا خیال رکھنا ہے اور ساتھ اس کا بھی،جی ابو،جاو اب چائے لاؤ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام علیکم امی!وعلیکم سلام آگئے عمر بیٹا تم،اب ذرہ جاؤ اور اپنی لاڈلی کو مناؤ جا کر،رات بھر مجھ سے پوچھتی رہی ہے بھائی کب آئیں گے؟امی بھائی کیوں نہیں آئے؟مجال ہے جو یہ لڑکی چوبیس گھنٹے تمہارے بغیر کبھی کاٹ لے،
صائمہ بیگم دوپہر کے کھانے کی لئے سبزی کاٹ رہی تھیں اور عمر کو راہداری سے اندر داخل ہوتے ہی فارعہ کے کمرے میں جانے کو کہا،
اچھا امی میں دیکھ لیتا ہوں اس کو بھی پہلے فریش ہو جاوں بہت تھک گیا ہوں یہ چوبیس چوبیس گھنٹے کی ڈیوٹی بھی تھکا کے رکھ دیتی ہے،پر کیا کریں ڈیوٹی تو ڈیوٹی ہے،خیر میں مناتا ہوں اس کو،اچھا ناشتہ بنا دوں؟نہیں امی ناشتہ میں نے کر لیا تھا صبح ہی،عمر آخری سیڑھی پر تھا،،اور بنا پیچھے مڑے جواب دے کر آگے بڑھا ہی تھا کہ دوبارہ صائمہ بیگم کی ہلکی سی آواز اس کے کانوں میں پڑی ہمیشہ کی طرح اس نے آج بھی کچھ نہیں کھایا؛امی اس کو کھلا دیا کریں پلیز میرا تو اپ کو پتہ ہی ہے کبھی کس وقت واپسی ہوتی کبھی کس وقت،کبھی نہیں بھی آپاتا میں گھر واپس،عمر الٹے پاوں ہی آدھی سیڑھیوں پہ آکھڑا ہوا تھا،اچھا نہا لو بہن کے ساتھ دوبارہ کرلینا ناشتہ میں بنانے لگی ہوں،صائمہ بیگم سبزی اور چھری وغیرہ میز پر سے اٹھانے لگیں،عمر اوپر کی منزل پہ چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Share this

Related Posts

Prev Post
« next
Next Post
PREVIOUS »