ساغر صدیقی کی منتخب غزلیں
ہے دعا یاد مگر حرف دعا یاد نہیں
میرے نغمات کو انداز نوا یاد نہیں
میں نے پلکوں سے در یار پہ دستک دی ہے
میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں
میں نے جن کے لیے راہوں میں بچھایا تھا لہو
ہم سے کہتے ہیں وہی عہد وفا یاد نہیں
تشریح: شاعر کہتا ہے کہ دعا مانگنا تو یاد ہے لیکن الفاظِ دعا یاد نہیں۔ اسی طرح اُس کے نغمات ہیں لیکن نئے انداز سے پیش کرنا یاد نہیں۔ وہ محبوب کے در پر پلکوں سے دستک دیتا ہے، لیکن کوئی جواب نہیں آتا۔ جن کے لیے اُس نے راستوں میں اپنا لہو بہایا، وہی اب عہدِ وفا کو بھول گئے ہیں۔
- ساغر صدیقی
وہ نہیں میرا مگر اس سے محبت ہے تو ہے
یہ اگر رسموں رواجوں سے بغاوت ہے تو ہے
سچ کو میں نے سچ کہا جب کہہ دیا تو کہہ دیا
اب زمانے کی نظر میں یہ حماقت ہے تو ہے
کب کہا میں نے کہ وہ مل جائے مجھ کو میں اسے
غیر نا ہو جائے وہ بس اتنی حسرت ہے تو ہے
تشریح: شاعر کہتا ہے کہ وہ میرا نہیں ہے، لیکن میں اس سے محبت ضرور کرتا ہوں۔ یہ محبت اگر روایات کے خلاف ہے تو ہے۔ میں نے سچ کو سچ کہہ دیا، اب دنیا اسے حماقت سمجھتی ہے۔ میں نے کب کہا تھا کہ وہ مل جائے؟ بس اتنی سی حسرت ہے کہ وہ میرا ہو جائے۔
- ساغر صدیقی
EmoticonEmoticon