heart touching ghazal 2025

 

ساغر صدیقی کی غزلیں

ساغر صدیقی کی منتخب غزلیں

ہے دعا یاد مگر حرف دعا یاد نہیں

میرے نغمات کو انداز نوا یاد نہیں

میں نے پلکوں سے در یار پہ دستک دی ہے

میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں

میں نے جن کے لیے راہوں میں بچھایا تھا لہو

ہم سے کہتے ہیں وہی عہد وفا یاد نہیں

تشریح: شاعر کہتا ہے کہ دعا مانگنا تو یاد ہے لیکن الفاظِ دعا یاد نہیں۔ اسی طرح اُس کے نغمات ہیں لیکن نئے انداز سے پیش کرنا یاد نہیں۔ وہ محبوب کے در پر پلکوں سے دستک دیتا ہے، لیکن کوئی جواب نہیں آتا۔ جن کے لیے اُس نے راستوں میں اپنا لہو بہایا، وہی اب عہدِ وفا کو بھول گئے ہیں۔
- ساغر صدیقی

وہ نہیں میرا مگر اس سے محبت ہے تو ہے

یہ اگر رسموں رواجوں سے بغاوت ہے تو ہے

سچ کو میں نے سچ کہا جب کہہ دیا تو کہہ دیا

اب زمانے کی نظر میں یہ حماقت ہے تو ہے

کب کہا میں نے کہ وہ مل جائے مجھ کو میں اسے

غیر نا ہو جائے وہ بس اتنی حسرت ہے تو ہے

تشریح: شاعر کہتا ہے کہ وہ میرا نہیں ہے، لیکن میں اس سے محبت ضرور کرتا ہوں۔ یہ محبت اگر روایات کے خلاف ہے تو ہے۔ میں نے سچ کو سچ کہہ دیا، اب دنیا اسے حماقت سمجھتی ہے۔ میں نے کب کہا تھا کہ وہ مل جائے؟ بس اتنی سی حسرت ہے کہ وہ میرا ہو جائے۔
- ساغر صدیقی

Share this

Related Posts

Prev Post
« next
Next Post
PREVIOUS »