New Novel Of 2022 The journey from love to reality 🤫🤫🤫🤫🤫episode #3

 :محبت سے حقیقت کا سفر

رائٹر: سدرہ یاسین

# سط نمبر 3

اس نے کر دکھایا؛

تایا ابا ہوا کیا ہے آخر اور رضا کی کالز رات کے وقت اور آپکی یہ سب باتیں مجھے تو کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا،

اپنی گھر سے بھاگی ہوئی بہن کو آکر سنبھالو اسامہ

میں نے کہا بھی تھا کی لڑکیوں کے لیے اتنی آزادی اچھی نہیں ہوتی،

جبار کے بیٹے یاسر کے ساتھ بھاگ کر شادی کر نے کے لیے جا رہی تھی وہ تو شکر ہے میں نے عین موقع پر اس کو پکڑ لیا ورنہ رہ ہی کیا جانا تھا گاؤں میں ہمارے خاندان کا،تایا ابا بنا رکے بول رہے تھے اور اسامہ کا غصہ اور تیش لمحہ با لمحہ آگ کی طرح بھڑک رہے تھے،دسمبر کی سردی میں اس کی پیشانی سے پسینہ ٹپکنے لگا تھا،

اب کیا وہیں کھڑے رہو گے جلدی گاؤں پہنچو اور ہاں میری بیٹی کو بھی ساتھ لیتے آنا: تایا نے بات مختصر کرتے ہوۓ فون رکھ دیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رضا اپنا فون ذرہ مجھے دینا اسامہ بھائی کو بابا کی طبیعت کا بتا دیتے ہیں اب تو صبح بھی ہو گئی ہے میرے فون کی بیٹری ختم ہو گئی ہے،اوہ،میرا فون تو گاڑی میں ہی رہ گیا اور ہمارے والی گاڑی تو ابو لے گئے تھے،ویسے میں نے کالز کی تھیں رات گئے انھوں نے نہیں اٹھائی وہ شاید سو رہے ہونگے،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دیکھو اس بد بخت کو کہیں پھر سے ہمارے منہ پہ کالک ملنے تو نہیں پہنچ گئی! نہیں امی میں نے باہر سے کمرہ لاک کر دیا تھا،نیلم نے ماں کو اطمینان دلاتے ہوئے اس کے اور ماہ نور کے کمرے کی طرف قدم بڑھائے،ٹھہرو میں کھولتی ہوں نبیلہ نے نیلم کو منع کرتے ہوئے کمرے کا دروازہ کھولا،

ٹھنڈے فرش پر ٹھٹھرتی سردی میں بغیر کسی لحاف کے ماہ نور بے سدھ پڑی تھی اس کے لمبے کالے اور چمکدار بال ماربل کے فرش پر بکھرے پڑے تھے،اس کا پورا جسم تھر تھر کانپ رہا تھا،

آؤ اس کو اٹھواؤ میرے ساتھ یہ مر جاے گی ورنہ نبیلہ کی ممتا اس کے غصہ پر ہاوی پڑ چکی تھی مگر نیلم پر کوئی اثر نہیں پڑا تھا وہ تو ہمیشہ ہی ماہ نور کی تعریف سن سن کر تنگ آئی رہتی تھی،اسے ہمیشہ یہی غلط فہمی رہتی تھی کہ ماہ نور اس کے حصے کا پیار محبت سب سے لے لیتی ہے،

اٹھاؤ اس کو نیلم !

دوسری بار کہنے پر نیلم ماں کے ساتھ ہوئی دونوں نے ماہ نور کو فرش سے اٹھا کر بیڈ پر لیٹایا،اس کا جسم بخار کی وجہ سے کوئلے کی طرح دہک رہا تھا،

گھر میں بخار کی جو بھی دوائیں پڑی ہیں ان میں سے کچھ اس کو کھلا دو نیلم

نبیلہ کا لہجہ دوبارہ بدل چکا تھا،نیلم دوا ڈھونڈنے چلی گئی اور نبیلہ کمرے سے باہر نکل آئی،اتنے میں ارم دروازے سے آتی دکھائی دی جو کے بڑے بڑے قدم بھرتی صحن سے برآمدے کی طرف آتی نبیلہ کو دیکھ چلتے ہی بولنے لگی

چچی وہ یاسر

یاسر کا رات ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے،اور وہ شہر والے ہسپتال میں ہے ابو کو ان کے کسی جاننے والے نے فون کر کے بتایا ہے،نام بھی مت لو اس خبیث انسان کا میرے گھر میں،مر گئے ہیں ہمارے لیے رابعہ اور جبار اور ان کے بچے؛

یاسر کا ایکسڈنٹ ہوگیا ہے!

ارم کی ہلکی سی آواز کمرے میں پڑی ماہ نور کی کانوں کو چھو کر گزری اور رات کے کسی پہر کو خشک ہو چکے آنسو پھر سے ضبط توڑتے ہوئے اس کے زرد پڑتے گالوں پر آ گرے۔محبت کے حقیر سفر نے ایک ہی رات میں اس کی زندگی اور چہرے کے سارے رنگ چھین لیے تھے اس کو رات کا وہ لمحہ ایک دم سے یاد آیا تھا جب یاسر نے اسے اپنی گاڑی کے پاس کھڑی کر کے تایا ابا کو فون کال ملا دی تھی،

سلطان ماموں! لے جائیں اپنی اس عزت کو جس کی دھمکیاں دے کر آپ میری والدہ کا حصہ ہڑپنا چاہتے تھے آپ کی وہی عزت میرے کہنے پر گاؤں کے چوراہے پر میرے ساتھ کھڑی ہے لے جائیں اس سے پہلے کہ کسی کے بھی ساتھ چلی جائے۔۔۔۔

یاسر اچانک سے ایسے بدل جائے گا یہ تو اس نے سوچا ہی نہیں تھا جسے وہ یاسر کی محبت سمجھتی چلی آ رہی تھی وہ تو اس کے ماں باپ کے بہت پہلے کیے گئے رشتہ کی نباہ تھی،اور ماں باپ کے کہنے پر وہ رشتہ نبھا سکتا تھا تو ختم کرنا تو کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا،لیکن ماہ نور کو تو محبت ہوچکی تھی اندھی محبت،اس کے ذہن میں بار بار ہزاروں سوال طوفان کی سی صورت اٹھ رہے تھے اور ساتھ ہی آنسوؤں کے پانی سے بجھ رہے تھے مگر یہ سنتے ہی رات کے بعد محبت کی مسافت سے تھکی ہاری ماہ نور میں پتا نہیں اتنی ہمت کہاں سے امڈ آئی تھی کہ وہ کمرے سے باہر نکل آئی تھی۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے⁦✍️⁩

Share this

Related Posts

Prev Post
« next
Next Post
PREVIOUS »