محبت سے حقیقت کا سفر
رائٹر:سدرہ یاسین
# قسط نمبر2
سرد رات قہر کی طرح ان پر ٹوٹ پڑی تھی۔۔۔۔۔
نیلم،
نیلم میں نے سب کچھ جان بوجھ۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ ماہ نور کچھ کہتی نیلم نے زور دار دکھا اسے کمرے کی طرف دیا اور دروازہ باہر سے لاک کر دیا۔
رضا،اسامہ کو فون کر کے اپنے چچا کی حالت بتا دو اور اسے کہو صبح ہوتے ہی گھر آئے،تائی نے اپنے بیٹے کو کہا اور ساتھ ہی ہسپتال جانے کی لیے گاڑی نکالنے کا کہا،نسرین میرا بچہ اس وقت پریشان ہوگا وہ پردیس میں ہے'
نبیلہ بے ساختہ بول پڑی تھی۔
نبیلہ تمھاری بیٹی نے جو گل کھلایا ہے نا پریشانی تو اب ہمیشہ رہے گی صبح تک پورے گاؤں میں خاندان کی عزت نیلام ہو جائے گی
نسرین تائی قدرے اونچی آواز میں گویا ہوئی
اب رو کیوں رہی ہو میں نا کہتی تھی سلطان سے کہ نا دو اتنی آزادی بچوں کو پر نہیں میری اور رضا کے باپ کی باتیں ہمیشہ تم دونوں کو بری ہی لگتی تھیں۔
امی بس کریں اس میں چچی کا کیا قصور ہے انہیں تو کچھ مت کہیں آپ پہلے ہی وہ اتنی پریشان ہیں، لیں رضا بھائی آگئےگاڑی لے کر
ارم ادھ کھلے دروازے میں پڑتی گاڑی کی لائٹ دیکھ کر متوجہ ہوئی،
تائی نے ارم کو سختی سے گھر کا پہرہ رکھنے کی تاکید کی اور نسرین کو لے کر ہسپتال روانہ ہوئی۔۔۔۔۔
ارم بابا ٹھیک تو ہو جائیں گے نا؟
نیلم دبی دبی آواز میں اپنی تایا زاد سے گفتگو کرنے لگی!
ماہ نور جو کی سب ہوتا دیکھ پہلے ہی بے ہوشی سے کم نہیں تھی نیلم کا دیا گیا ہلکا سا دھکا لگنے سے ہی اس کی پیشانی فرش پر جا لگی تھی اور وہ پوری طرح ہر درد ہر غم سے بے خبر فرش پر اوندھے منہ بے ہوش پڑی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارشد!
ارشد کیسے ہیں تمہارے با با؟کیا کہا ڈاکٹروں نے؟
سکندر بھائی آپ ہی کچھ بتائیں
ارشد کچھ تو بولو؛
نبیلہ مسلسل فکر مندی کے ساتھ پوچھ رہی تھی؛
ایکسکیوز می!
آپ کو آپ کو ڈاکٹر ناصر اپنے روم میں بلا رہے ہیں،
ذرا درمیانے قد کا کوئی آدمی ان کے پاس آکھڑا ہوا اور سکندر تایا سے مخاطب ہوا
ارشد اور سکندر تایا ڈاکٹر سے ملنے چلے گئے مگر نبیلہ مسلسل روئے جا رہی تھی
رضا چچی کے لیے پانی لے آو
نسرین تائی قدرے ہلکی مگر طنزیہ لہجے میں بولی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دروازہ کھولو
دروازہ کھول دو کوئی
خدا کے لیے دروازہ کھولو
ماہ نور خشک گلے سے مسلسل بولتی جا رہی تھی
میرا دم گھٹ رہا ہے،
نیلم ،
امی،
بابا،
کوئی تو دروازہ کھولو
وہ اپنے حواس جیسے کھو بیٹھی تھی
بابا،بابا تو
نیلم مجھے بابا کے پاس جانا ہے
پلیز مجھے باہر نکالو
اچانک سے اس کے دماغ میں باپ کا خیال گزا تھا جو اس کی تڑپ میں اور اظافہ کر گیا،اور ساتھ ہی دروزاے سے ڈھلکتے ہوئے زمین پر گرنے سی کی حالت میں بیٹھ گئی
اور اس کے ذہن میں یاسر کے جھوٹے وعدے
اس کی محبت میں کھائی گئی قسمیں اس کے اقرار
اس کے سب کچھ ٹھیک کرنے کے دلاسے
یاسر کی بچپن سے لے کر اب تک کا رویہ،
سب کسی ڈرامے کی طرح آنے لگا
اس کا دوپٹہ اس کے پاؤں کے پاس سے لے کر بیڈ کی سائیڈ تک پھیلا پڑا تھا،وہ ننگے پاؤں کھلے بالوں کے ساتھ بلکل کسی ہارے شخص کی سی حالت میں بے جان بند دروازے سے ٹیک لگی بیٹھی اپنے دوپٹے کو تک رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شدید کسی ذہنی دباؤ اور پریشانی کی وجہ سے سلطان صاحب کو دل کا دورہ پڑا ہے ،شکر ہے آپ لوگ انہیں وقت پر ہسپتال لے آئے ورنہ خدانخواستہ کچھ بھی ہو سکتا تھا،بہر حال مریض کی حالت اب خطرے سے باہر ہے ہم صبح تک ان کو وارڈ شفٹ کر دیں گے،آپ میں سے کوئی ایک یہاں ان کے پاس دہ لے باقی لوگ گھر تشریف لے جا سکتے ہیں،
مگر یاد رہے ان کسی بھی قسم کا ذہنی دباؤ نا دیا جائے
ڈاکٹر نہایت نرم مگر پر اسرار لہجے میں متوجہ تھا۔
تایا ابا!آپ امی اور تائی امی کو لے کر گھر چلے جائیں میں اور رضا یہاں رہ لیں گے،
ارشد سلطان تایا سے بات کرتے ہوئے گیلری کی طرف دیکھ رہا تھا جہاں نسرین تاتی نبیلہ کو پانی پکڑا رہی تھی اور رضا پاس ہی کھڑا تھا،
سلطان اور ارشد کو دیکھ کر تینوں ان کی طرف بھاگنے سی کی حالت میں بڑھے،
سلطان کی حالت اب خطرے سے باہر ہے،نسرین تم اور نبیلہ کو لے کر گھر چلی جاؤ میں یہاں ہوں ارشد کے ساتھ،تایا ابا آپ امی اور تائی کو لے کے چلے جائیں رضا اور میں رہ لیں گے یہاں،ارشد تایا کی بات کاٹتے ہوئے بول پڑا
اچھا!!!!
اسامہ کو صبح ہوتے ہی گاؤں آنے کا کہو ارشد:
تایا بھاری آواز میں ارشد کو تلقین کرنے لگا-
پریشانی کی جگہ غصہ نے لے لی تھی اور سکندر سر جھٹک کر دونوں عورتوں کو لے کر گھر جانے کے لیے ہسپتال کی سیڑھیاں اترنے لگا لیکن نبیلہ سٹریچر پر آتے سلطن کو دیکھ کر رک گئی،جسے نیند کی دوا دے کر وارڈ کی طرف لے جایا جا رہا تھا،
امی آپ پریشان نا ہوں بابا ٹھیک ہیں اب،ارشد نے ہاتھ کے اشارے سے ماں کو تایا کے ساتھ جانے کو کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہناز اٹھو اذان ہو رہی ہے نماز پڑھ لو:اسامہ نے موبائل چارج سے اتارتے ہوئے جو کہ اٹیچ واش روم کے دروازے کے ساتھ والے بورڈ میں لگا ہوا تھا، ذرا اونچی آواز میں شہناز کو جاگنے کے لیے کہا،
اوہ ہوہ ہ!یا اللہ خیر!
کیا ہوا سب خیریت؟ اسامہ کی طرف دیکھتے ہوئے شہناز ایک دم سے اٹھ بیٹھی تھی،تمھارے بھائی رضا کی اتنی زیادہ مسڈ کالز۔۔۔۔۔۔۔اور وہ بھی رات کی ساڑھے تین بجے؛
ہزار بار کہا ہے آپ سے کے موبائل کی گھنٹی بند نا کیا کریں پر آپ ہیں کے۔۔۔۔۔۔۔خیر کریں فون رضا کو،اللہ کرے گاؤں میں سب ٹھیک ہوں ،شہناز بیڈ سے اتر کر اسامہ کے پاس کھڑھی ہو گئی اور رضا کے نمبر پر جاتی ہوئی کال کو دیکھنے لگی،کچھ ہی دیر بعد کال ریسیو ہوئی،ہاں بیٹے اسامہ فوری گاؤں کے لیے نکلو؛
سکندر تایا کی آواز ان کے کانوں میں پڑی
تایا ابا سب،سب خیریت!
رضا ٹھیک تو ہے نا؟
اس کا فون آپکے پاس'
ہاں رضا بالکل ٹھیک ہے
جبار نے جو کہا تھا وہ کر دکھایا ہے،
کیا کیا!
کیا ہوا تایا ابا کیا کیا ہے جبار پھوپھا نے؟
اسامہ بے صبری سے سوال پہ سوال کرنے لگا
جبار نے ہماری عزت دو ٹکے کی نہیں چھوڑی،اس نے جیسے کہا تھا کہ زمین کا جو حصہ اس کا بنتا وہ بھی وہ لے گا
جاری ہے✍️
EmoticonEmoticon