Best Poeries Collection Must Read Like & Share

20 مکمل اردو غزلیں | شاعری کا شاہکار مجموعہ

🌹 20 مکمل اردو غزلیں 🌹

ہر غزل مکمل اشعار اور تشریح کے ساتھ

ف

احمد فراز

عصری شاعری کے بادشاہ

تیرے عِشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
ابھی سے کہہ دو کہ وفا نہیں کرو گی
مجھے تم سے ہے شکوہ، یہی چاہتا ہوں
یہ کیسا اعتماد ہے میرا اُس پر
کہ جو مانگتا ہوں، وہی پا چاہتا ہوں
مجھے ڈر ہے کہیں وہ ستم گر نہ ہو
میں اِس ڈر سے بھی دل بہلا چاہتا ہوں
کبھی سوزِ دل سے تو کبھی نغمے سے
ترا ذکر ہر آہ میں لا چاہتا ہوں
مری بات سمجھے گا تو کون سمجھے گا
میں اپنا ہی دل دکھا چاہتا ہوں
کہاں تم کہاں تمہاری محفلِ یار
میں تنہا ہی تنہا چاہتا ہوں
نہ ہو تم تو پھر کونسی بات ادھوری ہے
تمہیں ہر دعا میں پا چاہتا ہوں
فرازؔ کبھی ہم بھی تیرے تھے جانِ وفا
ابھی تو نے ہمیں بھلا چاہتا ہوں
تشریح: یہ غزل انتہائی محبت کی شدت کو بیان کرتی ہے۔ شاعر محبوب سے کہتا ہے کہ وہ اس کی محبت کی کوئی حد نہیں چاہتا۔ وہ اتنا بے بس ہے کہ محبوب کے منہ سے پہلے ہی یہ سن لینا چاہتا ہے کہ وہ وفا نہیں کرے گا،تاکہ دل کو سنبھال سکے۔ ہر شعر میں بے قراری اور عشق کی بے پایاں خواہش جھلکتی ہے۔
پ

پروین شاکر

جدید نسائی شاعری

کبھی کبھی تو یوں بھی دیکھا ہے
لوگ اُجڑے ہوئے گھر میں رکھتے ہیں
چراغ روشن کر کے سجاتے ہیں
پھر انہیں خود ہی بجھا دیتے ہیں
کسی کے درد کو محسوس کرتے ہیں
پھر اسی درد کو دبا دیتے ہیں
یہی کہنے کو ہونٹوں پہ لاتے ہیں
پر آنسوؤں کو چھپا دیتے ہیں
کسی کو اپنا بنانے کے چکر میں
اپنا آپ ہی گوا دیتے ہیں
وفاؤں کے بھروسے پہ رکھتے ہیں
پھر وہیں پر دل بہلا دیتے ہیں
کسی ایک ہی شخص کو چن لیتے ہیں
پھر ہزاروں کے خواب دکھا دیتے ہیں
یہی دنیا کا دستور ہے شاید
جو ملتا ہے، اُسے کھو دیتے ہیں
تشریح: پروین شاکر انسان کی نفسیاتی کیفیات کو بڑی خوبصورتی سے بیان کرتی ہیں۔ یہ غزل ان تضادات پر روشنی ڈالتی ہے جو ہمارے رویوں میں ہیں۔ ہم دوسروں کے دکھ کو سمجھتے ہیں مگر چھپا دیتے ہیں، وفا کا دعویٰ کرتے ہیں مگر دل بہلا لیتے ہیں۔
ج

جون ایلیا

انقلابی شاعر

محبت اپنوں سے بھی ہوتی ہے
پر کبھی غیر بھی اپنا ہو جاتا ہے
یہ کیسا سلسلہ ہے کوئی سمجھائے
جو ٹوٹ جاتا ہے، وہی جُڑتا ہے
کبھی ہم خود ہی سے الجھ جاتے ہیں
کبھی دنیا سے ہی بھڑ جاتے ہیں
کسی کو دیکھ کے اچانک لگتا ہے
یہی صورت تو مری دیکھی ہوئی ہے
کوئی آتا ہے تو لگتا ہے وہی ہے
کوئی جاتا ہے تو لگتا ہے وہی تھا
یہ ایک سا دکھ ہے ہر انسان کو
جو چاہتا ہے، وہی اس کو نہیں ملتا
ہمیشہ پیار ہی کرتے رہتے ہیں
ہمیشہ دکھ ہی اٹھاتے رہتے ہیں
پر ایسا کیوں ہے کہ ہر بار یہی ہوتا ہے
جو ملتا ہے، اُسے ہم بھول نہیں پاتے ہیں
تشریح: جون ایلیا محبت کے پیچیدہ رشتوں کی وضاحت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ محبت کا رشتہ کبھی اپنوں سے ہوتا ہے تو کبھی غیر بھی اپنے بن جاتے ہیں۔ محبت کا سلسلہ عجیب ہے جو ٹوٹ کر بھی پھر سے بن جاتا ہے۔
و

وصی شاہ

جدید رومانویت

تمہارے بعد جو لوگ ملے ہیں
وہ سب تو اچھے ہیں مگر تم جیسا کوئی نہیں
تمہاری بات ہی کچھ اور تھی
تمہارے انداز میں ایک خاص پن تھا
تمہاری یاد کے لمحے ہیں قیمتی
تمہاری باتوں کا ایک جدا سا لطف تھا
نہیں ملتا کہیں تم سا کوئی
نہیں ہوتا کوئی تم سا وفا شناس
تمہاری یادیں اب ساتھ ہی رہتی ہیں
تمہاری باتیں دل میں ہی بسی ہوئی ہیں
کبھی کبھی تو لگتا ہے تم ہو پاس
پھر آنکھ کھلتی ہے اور سب ختم ہوتا ہے
تمہارا نام لے کر ہی چین آتا ہے
تمہاری یاد بن کر ہی دل جیتا ہے
تشریح: اس غزل میں کسی خاص شخص کی جدائی کے بعد کی خلا کو محسوس کیا گیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ تمہارے بعد ملنے والے سب اچھے ہیں مگر تم جیسا کوئی نہیں۔ تمہاری باتیں، تمہارا انداز سب کچھ منفرد تھا۔
ف

فیض احمد فیض

ترقی پسند شاعر

رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چُپکے سے بہار آ جائے
جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے بادِ نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے
جیسے قیدی کو کوئی دن میں رہا کر دے
جیسے مریض کا درد اُتر جائے
جیسے تھکے ہوئے مسافر کو کوئی ٹھکانا ملے
جیسے بھٹکے ہوئے راہی کو کوئی راستہ ملے
جیسے دریا میں اُتر کر کوئی پیاس بجھائے
جیسے دکھی دل کو کوئی بات سنائے
جیسے آنسو پونچھ کر کوئی ہنس دے
جیسے چھوٹی سی بچی خواب میں مسکرائے
فیضؔ یوں دل میں تری یاد کا آنا بھی اچھا ہے
جیسے دنیا میں کوئی اپنا ملے اور سہارا ملے
تشریح: فیض کی اس غزل میں محبوب کی یاد کا اچانک آنا اس طرح بیان کیا گیا ہے جیسے ویرانے میں بہار آجائے۔ ہر شعر میں یاد کے آنے کی خوشی اور سکون کی کیفیت کو مختلف خوبصورت تصویروں کے ذریعے دکھایا گیا ہے۔
ن

ناصر کاظمی

رومانی شاعر

بے قرار آنکھوں میں نم ہی نم رہتا ہے
یہ دل بھی عجب ہے کہ ہر دم رہتا ہے
کبھی خوشی سے جھوم اٹھتا ہے
کبھی غم میں ڈوب کے سوتا ہے
کسی کی یاد ستاتی ہے تو
کسی کا انتظار رلاتا ہے
یہ کیسا درد ہے جو مٹتا ہی نہیں
یہ کیسی پیاس ہے جو بجھتی ہی نہیں
لوگ کہتے ہیں بھلا دے اسے
پر دل ہے کہ مانتا ہی نہیں
ناصرؔ کیا کریں ہم غمِ جاناں کے مارے
دل ہے کہ سنتا ہی نہیں کسی کی باتوں کو
تشریح: ناصر کاظمی دل کی بے قراری اور حساسیت کو بیان کرتے ہیں۔ دل کبھی خوشی سے جھوم اٹھتا ہے تو کبھی غم میں ڈوب جاتا ہے۔ یہ غزل ان جذبات کی عکاسی کرتی ہے جو مسلسل بدلتے رہتے ہیں۔
ک

کشور ناہید

جدید شاعرہ

تم آئے ہو تو یاد آیا ہے
جیسے برسات میں بھیگا ہوا موسم آئے
جیسے چاندنی راتوں میں تارے ٹمٹمائیں
جیسے خوشبو ہوا کے دوش پر آئے
جیسے بچپن کی کوئی یاد تازہ ہو جائے
جیسے بھولے ہوئے گیت زبان پر آئے
جیسے دریا کنارے پر لہرائیں
جیسے پھول کھلیں اور کلیاں مسکرائیں
جیسے دیپک کی لو ہوا میں ناچے
جیسے خوابوں کی دنیا میں سچائی آئے
کشورؔ اب تو یہی دعا ہے ہر پل
تمہاری یاد یوں ہی دل میں سمائے
تشریح: کشور ناہید کسی اپنے کے آنے سے پیدا ہونے والی خوشی اور پر سکون کیفیت کو بیان کرتی ہیں۔ جیسے برسات کا موسم، چاندنی رات، بچپن کی یادیں - ان سب تصویروں کے ذریعے وہ بتاتی ہیں کہ محبوب کا آنا کتنا پر اثر اور خوشگوار ہوتا ہے۔
ا

امجد اسلام امجد

معاشرتی شاعر

لوگ ایک دوسرے کو بھولتے جاتے ہیں
یادوں کے شہر ویران ہوتے جاتے ہیں
کل تک جو ساتھ تھے آج وہ پرائے ہیں
رشتے نبھانے والے کم ہوتے جاتے ہیں
وقت کی رفتار نے سب کو بدل ڈالا
وہی چہرے ہیں مگر باتںیں نئی ہیں
پہلے دل کی زبان سمجھ میں آتی تھی
اب تو الفاظ بھی مشکل ہوتے جاتے ہیں
امجدؔ اب تو یہی دعا ہے خدایا
کوئی اپنا سا مل جائے زندگی میں
تشریح: یہ غزل وقت کے ساتھ رشتوں کے بدلنے اور یادوں کے مٹنے کے المیے کو بیان کرتی ہے۔ وقت کی تیز رفتار زندگی نے لوگوں کو بدل دیا ہے، رشتے پرائے ہو گئے ہیں۔ شاعر کی دعا ہے کہ زندگی میں کوئی اپنا سا مل جائے۔
ق

احمد ندیم قاسمی

سماجی شعور

ایک چھوٹا سا بچہ تھا میں بھی کبھی
ماں باپ کی آنکھوں کا تارا تھا میں
گھر کی دیواروں پہ سورج نکالتا تھا
خوابوں کے پنکھ لگا کر اڑتا تھا میں
وقت نے مجھ کو بھی پڑھایا سبق
زندگی کی حقیقت سے ملا دیا مجھ کو
اب تو وہ بچہ کہیں کھو گیا ہے
بڑا ہو کر میں وہ نہیں رہا ہوں
قاسمیؔ اب تو یہی سوچتا ہوں
کاش وہ بچپن لوٹ آئے کبھی
تشریح: قاسمی صاحب بچپن کی معصومیت اور خوبصورت یادیں تازہ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بڑا ہو کر وہ بچہ کہیں کھو گیا ہے۔ یہ غزل بچپن کی یادوں اور اس کی معصومیت کو محسوس کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
غ

مرزا غالب

شاعری کا استاد

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان، لیکن پھر بھی کم نکلے
نکلا تھا دل لے کے آخر دیکھو غالب کیا ہوا
کہاں بیٹھ گئے وہ، کہاں چلے ہم نکلے
کہاں ہیں وہ لوگ جو وعدے کر کے بھول گئے
کہاں ہیں وہ دن جو خوابوں میں کھو گئے
زمانہ بدل گیا، لوگ بدل گئے
پر دردِ دل کبھی نہیں بدلا
غالبؔ یہی ہے زندگی کا سچ
جو آیا ہے، وہ جانا ہے
تشریح: غالب کی یہ غزل انسانی خواہشات اور زندگی کی ناکامیوں پر ہے۔ انسان ہزاروں خواہشیں کرتا ہے مگر پوری نہیں ہوتیں۔ وقت بدل جاتا ہے، لوگ بدل جاتے ہیں مگر دل کا درد نہیں بدلتا۔ یہ زندگی کے ایک اٹل سچ کی عکاسی ہے۔
م

میر تقی میر

غزل کے استاد

دلِ ناداں تُجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے
کتنی جلدی بھلا دیا ہمیں
کتنی آسانی سے چھوڑ گئے
اب نہ وہ ہیں نہ وہ بات ہے
پر دل ہے کہ مانتا نہیں
میرؔ کہتا ہے اے دنیا
تو نے کیسے کیے ہیں وعدے
تشریح: میر دردِ عشق کی شدت کو بیان کرتے ہیں۔ وہ دل سے پوچھتے ہیں کہ آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟ محبوب نے انہیں کتنی جلدی بھلا دیا، مگر دل ہے کہ مانتا ہی نہیں۔ یہ غزل یک طرفہ محبت کے دکھ کو پیش کرتی ہے۔
ا

انور مسعود

ہلکی پھلکی شاعری

وقت کتنا عجیب دریا ہے
کنارے پہ چھوڑ جاتا ہے جو، پلٹ کر نہیں دیکھتا
کل تک جو تھے ہمارے ساتھ آج وہی ہیں پرائے
یہ زمانہ ہے نہیں کسی کا وفا کا پابند
کچھ لوگ آئے، کچھ چلے گئے
یہ سلسلہ چلتا رہے گا
انورؔ اب تو عادت سی ہو گئی ہے
ہر ملنے والے کو خدا حافظ کہنا
تشریح: انور مسعود وقت کی تبدیلیوں اور رشتوں کے بدلنے پر روشنی ڈالتے ہیں۔ وقت دریا کی مانند ہے جو کنارے پر چھوڑے ہوئے لوگوں کو پلٹ کر نہیں دیکھتا۔ یہ غزل زندگی کے بدلتے ہوئے رشتوں اور وقت کی بے رحمی کو دکھاتی ہے۔
پ

پروین شاکر

دوسری غزل

تنہائی بھی کوئی چیز ہے
دل کرتا ہے کہیں چلا جاؤں
کسی ایسی جگہ جہاں پر
نہ کوئی ہو نہ کوئی آواز ہو
بس خاموشی ہو اور سکون ہو
دل کی دھڑکنوں کی آواز ہو
کبھی کبھی لگتا ہے
دنیا سے دور چلا جاؤں
پروینؔ کہتی ہے یہ تنہائی
دل کو ستاتی رہتی ہے
تشریح: پروین شاکر تنہائی کے احساس کو انتہائی نفاست سے بیان کرتی ہیں۔ تنہائی میں انسان دنیا سے دور کسی پر سکون جگہ چلا جانا چاہتا ہے جہاں صرف خاموشی اور سکون ہو۔ یہ غزل تنہائی کی کیفیات کو گہرائی سے سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔
ع

عمیر نیازی

جدید غزل گو

خواب ہی خواب میں بات ہوتی رہی
اُٹھے تو ہونٹوں پہ اُداسی تھی
تمہاری یاد کے سائے میں گزری رات
صبح ہوئی تو تھکاوٹ سی تھی
کبھی لگتا ہے تم ہو پاس
کبھی لگتا ہے بہت دور ہو
یہ کیسا رشتہ ہے کوئی بتائے
جو ٹوٹتا نہیں پر جُڑتا نہیں
عمیرؔ کہتا ہے یہ زندگی
اک عجیب سفر ہے
تشریح: عمیر نیازی خواب اور حقیقت کے درمیان فرق کو دھندلا کرتے ہیں۔ خوابوں میں باتیں ہوتی ہیں مگر جاگنے پر اداسی چھا جاتی ہے۔ محبوب کی یاد میں گزری رات صبح تھکاوٹ لے کر آتی ہے۔ یہ غزل خوابوں اور حقیقت کے درمیان کے تضاد کو ظاہر کرتی ہے۔
ف

احمد فراز

تیسری غزل

اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
کبھی ہم دُور تھے، اب تو اور بھی دُور ہیں
پہلے ملتے تھے خوابوں میں، اب خوابوں میں بھی نہیں
تمہیں پا کر بھی جو کھویا ہے وہ بات اور تھی
تمہیں کھو کر بھی جو پایا ہے وہ بات اور ہے
نہ جانے کون سا غم ہے جو چُھپا کے رکھا ہے
نہ جانے کون سی بات ہے جو کہہ نہیں سکتے
یہ کیسا عذاب ہے، یہ کیسی محبت ہے
کہ تم بھی ہو پاس اور تمہیں پانا ممکن نہیں
تشریح: فراز اس غزل میں جدائی کے بعد ملن کی امید خوابوں سے وابستہ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پہلے خوابوں میں ملتے تھے، اب وہاں بھی نہیں ملتے۔ محبوب کے پاس ہونے کے باوجود اسے نہ پا سکنے کا المیہ بڑا گہرا ہے۔
ج

جون ایلیا

دوسری غزل

یوں بھی ہوتا ہے کوئی خواب سچا ہو جائے
پھر اُس خواب کا ٹوٹنا بھی اچھا لگتا ہے
کبھی مل جاتا ہے وہ جو چاہتے ہیں
پھر اسے کھونے کا دکھ بھی آتا ہے
زندگی ہے یہی اتار چڑھاؤ
آج خوشی ہے تو کل غم ہوگا
جونؔ کہتا ہے مسکرانا سیکھو
چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش رہو
تشریح: جون ایلیا کہتے ہیں کہ کبھی کبھی خواب سچے ہو جاتے ہیں، پھر ان کا ٹوٹنا بھی اچھا لگتا ہے۔ زندگی اتار چڑھاؤ سے بھری ہے - آج خوشی ہے تو کل غم ہوگا۔ ان کا مشورہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش رہنا سیکھیں۔
و

وصی شاہ

دوسری غزل

وفا کرنی ہو تو پھر یوں کرو
کہ ہر حال میں ساتھ نبھاؤ
نہ دیکھو موقعہ اور وقت
ہر مشکل میں ساتھ کھڑے رہو
محبت کا مطلب ہے نباہنا
ہر حال میں ساتھ دے کر رہنا
وصیؔ کہتا ہے اصلی دوست وہی
جو مشکل وقت میں کام آئے
تشریح: وصی شاہ سچی وفا کی تعریف کرتے ہیں۔ وفا کا مطلب ہے ہر حال میں ساتھ نبھانا، موقع اور وقت نہ دیکھنا۔ اصلی دوست وہی ہے جو مشکل وقت میں کام آئے۔ یہ غزل سچے رشتوں کی پہچان کراتی ہے۔
ف

فیض احمد فیض

دوسری غزل

اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتین اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
غمِ دوراں بھی ہیں، غمِ جاناں بھی ہے
زندگی صرف محبت کا نام نہیں
ہیں اور بھی مقصد زندگی میں
محبت سے بڑھ کر بھی کچھ ہے
فیضؔ کہتا ہے محبت ضروری ہے
پر زندگی کا مقصد صرف یہی نہیں
تشریح: فیض کہتے ہیں کہ دنیا میں محبت کے علاوہ بھی بہت سے دکھ ہیں۔ زندگی صرف محبت کا نام نہیں، اس کے اور بھی مقاصد ہیں۔ محبت ضروری ہے مگر زندگی کا مقصد صرف یہی نہیں۔ یہ غزل زندگی کے وسیع تر پہلوؤں کی طرف توجہ دلاتی ہے۔
ن

ناصر کاظمی

دوسری غزل

چلو پھر سے کوئی ارمان بُن لیں
چلو پھر سے آپ سے بیگانہ ہو جائیں
نئی شروعات کریں زندگی کی
پرانی یادیں مٹا دیں
ناصرؔ کہتا ہے چلو پھر سے
کوشش کرتے ہیں خوش رہنے کی
تشریح: ناصر کاظمی نئی شروعات کی امید دلاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چلو پھر سے بیگانہ ہو جائیں، نئی زندگی شروع کریں۔ پرانی یادیں مٹا کر خوش رہنے کی کوشش کریں۔ یہ غزل مایوسی کے بعد امید کی کرن دکھاتی ہے۔
ف

احمد فراز

چوتھی غزل

بس کچھ یوں ہوا کہ وہ مل گئے
زندگی بھر کے لیے رستے بدل گئے
اب نہ وہ ہیں نہ وہ رشتے ہیں
پر آنکھوں میں ان کی خوشبو رہ گئی ہے
دل ہے کہ بھولتا نہیں
یادوں کے دریا بہتا نہیں
فرازؔ کہتا ہے یہ محبت
ایسا جادو ہے جو اترتا نہیں
تشریح: فراز کہتے ہیں کہ محبوب سے ملاقات نے زندگی کے رستے بدل دیے۔ اب نہ وہ رہے نہ وہ رشتہ، مگر آنکھوں میں ان کی خوشبو بسی ہوئی ہے۔ دل ہے کہ بھولتا نہیں، یادوں کا دریا بہتا نہیں رکتا۔ محبت ایک ایسا جادو ہے جو اترتا نہیں۔

💫 20 مکمل غزلوں کا شاہکار مجموعہ

ہر شعر دل کی گہرائیوں تک اتر جائے | پڑھنے اور شیئر کرنے کا شکریہ

Share this

Related Posts

Prev Post
« next
Next Post
PREVIOUS »
Mega Movies Hub - 500+ Dual Audio Movies & Web Series

Mega Movies Hub

500+ Dual Audio Movies & Web Series - All in One Place

Loading movies...
🔄 Loading movies, please wait...