محبت سے حقیقت کا سفر
رائٹرسدرہ یاسین#1قسط نمبر
کمرے میں ہر طرف تاریکی پھیلی ہوئی تھی رات کے اس پہر کا ماحول اتنا خاموش تھا کہ گھڑی کی سوئی کی حرکت کرنے کی آواز بھی لمحہ بھر کو ایسے سنائی دے رہی تھی جیسے کوئی زور دار چیز گھسیٹ رہا ہو،
ماہ نور دونوں بازوؤں کا گھیرا ڈالے بیڈ کی ایک طرف بیٹھی تھی،بیٹھی کیا تھی اپنے گزرے لمحوں پر رونا رو رہی تھی اس کی سانس اس پل گلے میں ایسے اٹکی تھی جیسے کسی نے پھندا ڈال دیا ہو۔۔۔۔۔
یہ رات کے کوئی اڑھائی کا وقت تھا وہ اپنے ہی کمرے میں اجنبیوں کی طرح محسوس کر رہی تھی،وہ کمرہ جہاں اس کا بچپن گزرا تھا وہ کمرہ جہاں اس کے اور اس کی چھوٹی بہن کے درمیاں چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر بڑے بڑے جھگڑے ہو جاتے تھے اور وہ اگلے دن کا سورج نکلتے ہی ختم ہوجایا کرتے تھے،
ماہ نور کو بار بار وہ لمحے یاد آرہے تھے کہ کیسے اس نے باپ کی عزت کو روند کر محبت کی انگلی تھام کر گھر کی دہلیز پار کر دی تھی۔
وہ سمجھ ہی نہیں پا رہی تھی کہ کچھ ہی گھنٹوں میں اس کی زندگی کیا سے کیا بن چکی تھی،لیکن ایک بات تو وہ جان چکی تھی کے سگے باپ بھائی سے بڑھ کر لڑکی کا کوئی سگا نہیں ہو سکتا کوئی وفادار نہیں ہو سکتا۔لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا چگ گئ کھیت۔۔۔۔۔۔۔۔
اتنے میں سکندر تایا کے زور زور سے بولنے کی آواز ماہ نور کے کانوں سے گزرتی ہوئی پورے کمرے کی خاموشی کو زار زار کر رہی تھی،وہ جو پہلے ہی ڈری سہمی بیٹھی تھی اس کے ڈر میں اب اور اضافہ ہو چکا تھا
سلطان تمھاری بیٹی نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا؛
سکندر تایا کے یہ الفاظ اس کی سانسوں کی گھٹن کو اور ہوا دے رہے ھے اتنے میں کچھ لمحے خاموشی چھائی اور عجیب سا شور سب سے پہلے سکندر تایا کی آواز تھی،
سلطان؛ سلطان کیا ہوا
ارے کوئی گاڑی نکالو!
نیلم پانی لاؤ جلدی،
ارشد بھائی کی آواز با مشکل نکل رہی تھی حالانکہ وہ ہمیشہ سے معاملہ فہم تھا اپنے باپ کی طرح۔۔۔۔۔
اتنے میں ماہ نور بھی ننگے پاؤں اپنے کمرے سے آتی دکھائی دی
اس کا حلیہ خاصا بگڑا ہوا تھا ادھ کھلے بال،پونی ڈھلک کر بالوں کے آخری حصوں میں تھی دوپٹہ آدھا کندھے پر اور آدھا زمین پر لٹک رہا تھا،اس کی بڑی بڑی آنکھیں جو کہ انسوؤں سے سرخ پڑ چکی تھیں اب اور بڑی ہو رہی تھیں کیونکہ سلطان صاحب کو گاڑی میں سکندر تایا اور ارشد بھائی بے ہوشی کی حالت میں پیچھے کی طرف بٹھا رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ برامدے کے پلر کے ساتھ جیسے بت بنی کھڑی تھی،ان کے سر پر آسمان در آسمان ٹوٹ پڑا تھا
پہلے عزت کا آسمان اب سلطان صاحب کی حالت،اگلے ہی لمحے گاڑی گھر کے صحن سے دروازے کی طرف مڑی اور چلی گئی،اب گھر کے باقی افراد کا دھیان ماہ نور پر پڑا جو دنیا سے لا علم اپنے غم میں بے جان کھڑی تھی آخر کچھ بھی ہو غلطی تو اس سے سرزد ہوچکی تھی جس کا ازالہ بھی ممکن نہیں تھا۔ایک ایسا داغ اس نے اپنے دامن اور خاندان کی آبرو پر داغ دیا تھا جو قیامت تک نہیں مٹ سکتا،زور دار تھپڑ اس کی دائیں گال پر پڑا اور اسے غم کے سکتے سے باہر نکال لایا یہ تھپڑ نسرین تائی نے مارا تھا وہ شاید سب گھر والے سکندر تایا کے زور زور سے چلانے پر ان کی طرف لگے تماشے کو انجوائے کرنے پہنچ چکے تھے
سکندر تایا اور نسرین تائی جو کہ ہمیشہ ہی خاندان بھر میں اپنے بچوں کی پرودرش کے گن گاتے تھکتے نہیں تھے اب تو انہیں موقع ملا تھا کے سلطان اور نبیلہ کے بچوں اور ان کی پرورش پر آوازے کس سکیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیلم ! اس بے حیا کو میری نظروں سے دور کرو،جاؤ
نبیلہ بس اتنا ہی کہ پائی تھی اور آنسووں کی زد میں لپٹ چکی تھی،نسرین تائی نے لب دبائے فاتہانہ نظر نبیلہ پر ڈالی اور اس کو بجائے حوصلہ دینے کے ہسپتال جانے کا مشورہ دینے لگی۔۔۔۔۔
سرد رات قہر کی طرح ان پر ٹوٹ پڑی تھی💦
جاری ہے✍️
EmoticonEmoticon