فہد ❤ ثناء
20 سال، 7,305 خطوط، اور ایک ایسی محبت جس نے وقت اور موت کو شکست دے دی
پہلی ملاقات - مکمل تفصیل
سردیوں کی وہ تاریخی شام 12 دسمبر 1995 کی تھی۔ ہوا میں سردی کے ساتھ ساتھ نمی بھی تھی جو ہڈیوں میں اتر رہی تھی۔ فہد کا کمرہ شہر کے پرانے حصے میں "گلشن اقبال" کی تنگ گلی نمبر 7 میں واقع تھا۔
فہد کی لکڑی کی بنی میز پر ایک پرانا ٹائپ رائٹر تھا جس کے 'E' اور 'A' کے بٹن اکثر اٹک جاتے تھے۔ میز کے ایک کونے میں تیل کا ایک پرانا لیمپ تھا جس کی شیشے کی چمنی دھندلی ہو چکی تھی۔
ملاقاتوں کا خوبصورت سلسلہ
پہلی ملاقات کے بعد فہد اور ثناء ہر روز لائبریری میں ملنے لگے۔ ثناء امیر گھرانے سے تھی - اس کے والد ایک بڑے صنعتکار تھے - مگر اس میں تکبر نام کو نہ تھا۔ وہ فہد کی تحریریں پڑھتی اور گہرائی سے اپنی رائے دیتی۔
ایک دن تیز بارش ہو رہی تھی۔ دونوں لائبریری کی چھت پر کھڑے بارش کے قطرے دیکھ رہے تھے۔ ثناء نے مسکراتے ہوئے کہا: "تو پھر لکھو، ہماری کہانی لکھو۔ میں چاہتی ہوں کہ ہماری محبت کی داستان ہمیشہ زندہ رہے۔"
علیحدگی کا المناک دکھ
ثناء کے گھر والوں کو پتہ چلا تو گھر میں زلزلہ آ گیا۔ ثناء کے والد سید ظفر اللہ خان نے اسے اپنے کمرے میں بلایا اور سخت لہجے میں کہا: "تمہاری شادی چوہدری صاحب کے بیٹے سے طے ہو چکی ہے۔ یہ غریب لکھاری تمہارے قابل نہیں ہے۔ تمہیں اپنے خاندان کی عزت کا خیال رکھنا چاہیے۔"
آج کے بعد شاید ہم کبھی نہ مل سکیں۔ مگر تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تمہاری محبت میرے دل میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔ ہماری کہانی تم لکھتے رہنا۔ میں وعدہ کرتی ہوں کہ تمہاری لکھی ہوئی ہر تحریر، ہر لفظ، ہر جملہ پڑھوں گی۔ تمہیں بھولنا میرے لیے ناممکن ہے۔
تمہاری وہ تصویر جو تم نے مجھے لائبریری میں دی تھی، وہ میرے پاس ہے اور رہے گی۔
ہمیشہ تمہاری،
ثناء"
خطوط کا سلسلہ
فہد نے ہر روز خط لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کی روزمرہ زندگی کا یہی معمول بن گیا:
365 خطوط - ہر خط 2 صفحات
1,825 خطوط - اب ہر خط 3 صفحات
3,650 خطوط - خطوط میں گہرائی آ گئی
7,300 خطوط - محبت کا مکمل ادبی مجموعہ
ہر خط میں ثناء سے باتیں، اسے اپنے دکھ سکھ بتانا، یادوں کو تازہ کرنا، اپنے خواب بیان کرنا۔
آخری سانسوں کی کہانی
حقیقت یہ تھی کہ فہد اور ثناء ایک ہی ہسپتال کے دو مختلف وارڈوں میں تھے۔ فہد کمرہ نمبر 305 میں تھا، ثناء کمرہ نمبر 306 میں۔ صرف ایک دیوار ان کے درمیان حائل تھی۔
فہد نے اپنی آخری سانس لی، اس کے ہاتھ میں ثناء کا آخری خط تھا۔ اس کی آنکھوں میں ثناء کی تصویر تھی۔
15 مارچ 2015 کی شام 5:35 بجے:
ثناء نے اپنی آخری سانس لی، اس کے ہاتھ میں فہد کا آخری خط تھا۔ اس کے ہونٹوں پر فہد کا نام تھا۔
دونوں کی موت میں صرف 5 منٹ کا فرق تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے کا نام لے کر آخری سانس لی۔

EmoticonEmoticon