علامہ اقبال کے مکمل کلام
Allama Iqbal Complete Poetry Collection
شاعر مشرق کے شہرہ آفاق کلام - اصل اردو متن، تشریح اور انگریزی ترجمہ کے ساتھ
"خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے"
کلام نمبر 1
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
دور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائے
ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے
ہو مرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت
جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت
زندگی ہو مری پروانے کی صورت یارب
عالمِ صنع میں ہو میری محبت کی ضیا
جائے نام میں جب مرے غمِ زندگی کا
آسماں ہو مرا دیدارِ پری زاد کا
زندگانی ہو مری کوئل کی فغاں کے لیے
کچھ نہ ہو تو ہو تڑپ دل کی زباں کے لیے
تشریح
یہ نظم اقبال کی مشہور ترین نظموں میں سے ہے جو بچوں کی دعا کے طور پر لکھی گئی۔
شاعر خدا سے دعا کرتا ہے کہ اس کی زندگی شمع کی مانند ہو جو دوسروں کے لیے روشنی بنے۔
وہ چاہتا ہے کہ اس کی وجود سے دنیا کے اندھیرے دور ہوں اور ہر طرف روشنی پھیلے۔
اس کی زندگی پروانے کی طرح ہو جو شمع کے گرد محبت سے گردش کرے۔
وہ اپنی زندگی کو اپنے وطن کی زینت بنانا چاہتا ہے جیسے پھول باغ کی زینت ہوتا ہے۔
English Translation
"My desire comes to my lips as a prayer to you
O God! May my life be like a burning candle!
May the darkness of the world disappear by my light
May every place be illuminated by my glow
May my homeland be adorned by my existence
Just as a garden is adorned by flowers
O Lord! May my life be like a moth
May the light of my love shine in this world
When my life's sorrows come to an end
May I behold the vision of the heavenly beauty
May my life be for the song of the nightingale
If nothing else, may it be for the longing of my heart"
کلام نمبر 2
خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میرا درد کیا ہے
خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میرا درد کیا ہے
میں کس سے پوچھوں کہ میرا درد کیا ہے
مجھے تو اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں
کہ جس کے آغوش کی دھوپ میں پرورش کرتی ہے کلیاں
مری نگاہوں میں ہے وہ جلوہ کہ جس کے آگے
چراغِ رخِ یار بھی ہیں بے نور و بے ضیا
مجھے تو ڈوبا ہے ترے عشق میں ایسا
کہ مثلِ حبابِ صرصر ہوں میں بے کراں میں
مرا مقام ہے برتر از سماوات و ارض
مری فضا ہے فضائے بے کراں میں
مری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ
کہ میں ہوں محرم راز درون میخانہ
تشریح
اس نظم میں اقبال اپنے درد اور کرب کا اظہار کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ وہ ایسی قوم میں پلا بڑھا ہے جس کی محبت کی آغوش میں پھول کھلتے ہیں۔
ان کی نظر میں وہ جلوہ ہے جس کے سامنے محبوب کا چہرہ بھی بے نور ہو جاتا ہے۔
اقبال خود کو بے پایاں سمندر میں حباب کی مانند محسوس کرتے ہیں۔
وہ اپنے مقام کو آسمانوں اور زمین سے بلند بتاتے ہیں۔
English Translation
"Why should I ask the wise about my pain?
From whom should I ask what my pain is?
I have been nurtured in the lap of that nation
In whose loving embrace buds blossom
In my eyes is that splendor before which
The lamp of the beloved's face seems dim
I am so drowned in your love
That I am like a bubble in the endless ocean
My station is higher than heavens and earth
My atmosphere is in the infinite space
Do not consider my scattered song as poetry
For I am the confidant of the secrets within the tavern"
کلام نمبر 3
مسلمان کو مسلمان کر دیا تو نے
مسلمان کو مسلمان کر دیا تو نے
ہر دل میں تیرا ہی نور سما دیا تو نے
تو نے بخشی ہے مجھے زندگی کی دولت
تو نے سکھلائی ہے مجھ کو زندگانی کی ریت
تیرا احسان ہے میری ہر اک سانس پہ میں
تیرا ہی نام ہے میری ہر اک آس پہ میں
تو ہی میرا خدا، تو ہی میرا رسول
تیرے سوا نہیں ہے میرا کوئی مقصود وصول
تیری محبت نے دی ہے مجھ کو زندگی
تیرے ذکر نے بخشی ہے مجھ کو مستی
میں ہوں تیرا بندہ، تو ہے میرا مالک
تیرے در پہ ہے میرا ہر اک سوال کا حلق
تشریح
یہ نظم اقبال کی اسلامی شاعری کا بہترین نمونہ ہے۔
شاعر خدا کی حمد و ثنا بیان کرتا ہے کہ اس نے مسلمان کو مسلمان بنایا۔
ہر دل میں خدا کا نور سما دیا۔ زندگی کی دولت بخشی اور زندگانی کی راہ سکھائی۔
ہر سانس پر خدا کا احسان ہے اور ہر امید میں اس کا نام ہے۔
شاعر اپنے آپ کو خدا کا بندہ قرار دیتا ہے۔
English Translation
"You have made the Muslim a Muslim
You have filled every heart with Your light
You have bestowed upon me the wealth of life
You have taught me the way of living
I am indebted to You for every breath I take
Your name is on every hope of mine
You are my God, You are my Messenger
I have no other purpose but You
Your love has given me life
Your remembrance has given me ecstasy
I am Your servant, You are my Master
At Your door is the chain of all my questions"
کلام نمبر 4
جبریل و سرافیل سے بڑھ کر ہے انسان
جبریل و سرافیل سے بڑھ کر ہے انسان
خاکی کے لیے ہے یہ مقام بلند تر
اس کی خودی ہے شاہین کی مانند بلند
اس کے مقاصد ہیں آسمانوں کو چیرتے
وہ ہے خلیفۂ خدا اس جہان میں
اس کی نظر میں ہے ہر شے کا راز پوشیدہ
اس نے سمجھا ہے زمان و مکان کے اسرار
اس نے پائی ہے کائنات کی کنجی
وہ ہے صاحبِ علم و حکمت و دانش
اس کے سامنے ہیں سب راز کھلے ہوئے
انسان ہے اشرف المخلوقات اس لیے
کہ اس میں ہے روحِ خدا کی جھلک نمایاں
تشریح
اس نظم میں اقبال انسان کی عظمت اور اس کے مقام کو بیان کرتے ہیں۔
انسان فرشتوں سے بھی بلند مقام رکھتا ہے۔
اس کی خودی شاہین کی مانند بلند ہے اور اس کے مقاصد آسمانوں کو چیرنے والے ہیں۔
انسان خدا کا خلیفہ ہے اور اس کی نظر میں ہر شے کا راز پوشیدہ ہے۔
اس نے زمان و مکان کے اسرار سمجھے ہیں اور کائنات کی کنجی پائی ہے۔
انسان اشرف المخلوقات ہے کیونکہ اس میں روح خدا کی جھلک نمایاں ہے۔
English Translation
"Man is greater than Gabriel and Seraphiel
For the earthly being, this station is higher
His self is lofty like an eagle
His aims pierce through the heavens
He is God's vicegerent in this world
In his sight are hidden the secrets of everything
He has understood the mysteries of time and space
He has found the key to the universe
He is the possessor of knowledge, wisdom and insight
Before him all secrets are revealed
Man is the best of creation because
In him shines the reflection of God's spirit"
کلام نمبر 5
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ امرا کے در و دیوار ہلا دو
گرانوں کے گھر میں آگ لگا دو
نئے عالم کے تصور سے بھرا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
سلطانیٔ جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
میرے سبھی غلاموں کو حکم ہے میرا
بندھن توڑ دو، بندھن توڑ دو، بندھن توڑ دو
اٹھو اور اب دنیا کو بدل ڈالو
نظامِ کہن کو اک نیا روپ دکھلا دو
تشریح
یہ نظم اقبال کی انقلابی شاعری کا بہترین نمونہ ہے۔
شاعر دنیا کے غریبوں کو بیدار ہونے کا پیغام دیتا ہے۔
امرا کے محلات کے در و دیوار ہلا دینے کا حکم دیتا ہے۔
ظالمانہ نظام کو بدلنے اور نئے عالم کے تصور سے دنیا کو بھرنے کی ترغیب دیتا ہے۔
وہ جمہور کی سلطانی کے آنے کا اعلان کرتا ہے۔
غلاموں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے بندھن توڑ دیں۔
English Translation
"Arise and awaken the poor of my world
Shake the doors and walls of the palaces of the rich
Set fire to the homes of the wealthy
Fill the world with the vision of a new era
Burn every ear of wheat from the field
From which the farmer cannot get his livelihood
The era of people's sovereignty is coming
Erase every old pattern that you see
To all my slaves, I give this command
Break the chains, break the chains, break the chains
Arise and now change the world
Show a new form to the old system"
کلام نمبر 6
تو برا ہے تو میں بھی برا ہوں
تو برا ہے تو میں بھی برا ہوں
یہ بتا تو سہی کہ برا کون ہے
تیرے ایمان کا چرچا ہے بہت دور تک
مگر تیرے عمل سے ہے دنیا خالی
تو کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں
مگر تیرے عمل میں نہیں ہے اسلام
تیری نماز و روزہ سب ہے دکھاوا
تیرے دل میں نہیں ہے خوفِ خدا
تو پڑھتا ہے قرآن کو ہر روز
مگر سمجھتا نہیں ہے اس کا مطلب
اے مسلمان! ذرا غور سے دیکھ اپنے آپ کو
کہیں تو خود ہی تو نہیں ہے وہ برا
تشریح
اس نظم میں اقبال مسلمانوں کو ان کے حالات پر تنبیہ کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ تم دوسروں کو برا کہتے ہو مگر خود بھی برے ہو۔
تمہارے ایمان کا چرچا دور تک ہے مگر تمہارے عمل سے دنیا خالی ہے۔
تم مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہو مگر تمہارے عمل میں اسلام نہیں ہے۔
تمہاری نماز و روزہ دکھاوے کے ہیں اور تمہارے دل میں خوف خدا نہیں ہے۔
تم قرآن پڑھتے ہو مگر اس کا مطلب نہیں سمجھتے۔
English Translation
"You are bad, and I am also bad
Tell me then, who is actually bad?
The talk of your faith reaches far and wide
But the world is empty of your actions
You say that you are a Muslim
But your actions do not reflect Islam
Your prayers and fasting are all for show
There is no fear of God in your heart
You read the Quran every day
But you do not understand its meaning
O Muslim! Look at yourself carefully
Perhaps you yourself are that bad one"
کلام نمبر 7
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن
گھڑی گھڑی اس کے مقاصد ہیں نئے
اس کی خودی ہے دریا کی مانند رواں
اس کے ارادے ہیں پہاڑوں کو ہلا دینے والے
وہ ہے صاحبِ علم و عمل کا پیکر
اس کے دل میں ہے عشقِ رسول کی گرمی
اس کی نظر میں ہے ہر شے کا راز پوشیدہ
اس کے سینے میں ہے دنیا کی ہر آگ کی تپش
وہ ہے خلیفۂ خدا اس جہان میں
اس کی زبان پہ ہے ہمیشہ ذکرِ خدا
مومن کی یہی پہچان ہے اس جہان میں
کہ اس کے دل میں ہے عشقِ حقیقی کی کرن
تشریح
اس نظم میں اقبال مومن کی صفات بیان کرتے ہیں۔
مومن ہر لحظہ نئی شان اور نئی آن رکھتا ہے۔
اس کے مقاصد ہر گھڑی نئے ہوتے ہیں۔
اس کی خودی دریا کی مانند رواں ہے اور اس کے ارادے پہاڑوں کو ہلا دینے والے ہیں۔
وہ علم و عمل کا پیکر ہے اور اس کے دل میں عشق رسول کی گرمی ہے۔
اس کی نظر میں ہر شے کا راز پوشیدہ ہے اور اس کے سینے میں دنیا کی ہر آگ کی تپش ہے۔
English Translation
"Every moment brings new glory and new dignity to the believer
Every moment his objectives are new
His self is flowing like a river
His determinations can shake mountains
He is the embodiment of knowledge and action
In his heart is the warmth of love for the Prophet
In his sight are hidden the secrets of everything
In his chest is the heat of every fire in the world
He is God's vicegerent in this world
On his tongue is always the remembrance of God
This is the identity of the believer in this world
That in his heart is the ray of true love"
کلام نمبر 8
جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریا کے دل میں جو سمٹ آئے وہ دریا کیا
دل بے تاب ہے کیا کہیے تابِ سخن کیا
جانے کس نغمہ میں ہے اب تک مرا ارماں
کیا کہوں دوستو سے کہ میں کیا چاہتا ہوں
یہ بتا سکتا ہے وہی جو ہے مرا ہمدم
میری آواز ہے گم گشتہ فضا میں کہیں
میرے نغمے ہیں بکھرے ہوئے صحرا میں کہیں
دل کی دھڑکن میں ہے چھپا ہوا کوئی راز
آنکھ کی نم میں ہے کوئی داستانِ پریشاں
کون سنے گا مری آواز کو اس دور میں
کون سمجھے گا مرے دل کے اندر کا طوفان
تشریح
اس نظم میں اقبال اپنے دل کی کیفیات اور جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ جو شبنم لالہ کے جگر میں ٹھنڈک پیدا کرے وہ کیا ہے۔
دریا کے دل میں جو سمٹ آئے وہ دریا کیا ہے۔
ان کا دل بے تاب ہے اور وہ بتا نہیں سکتے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔
ان کی آواز گم گشتہ فضا میں ہے اور ان کے نغمے صحرا میں بکھرے ہوئے ہیں۔
دل کی دھڑکن میں کوئی راز چھپا ہوا ہے اور آنکھ کی نم میں کوئی پریشان داستان ہے۔
English Translation
"The dew that brings coolness to the tulip's heart
What is the river that contracts in the river's heart?
What can I say about my restless heart?
In which melody lies my desire till now?
What should I tell my friends about what I want?
Only my companion can tell that
My voice is lost somewhere in the atmosphere
My songs are scattered somewhere in the desert
Hidden in the heartbeat is some secret
In the eye's moisture is some scattered tale
Who will listen to my voice in this era?
Who will understand the storm within my heart?"
کلام نمبر 9
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں
تہی ہے غرض سے تجھے ہر عمل کی
عبادت ہے بے لذت اگر نہیں تجھ کو
یہی ہے زمانہ قدیم اس کا طریق
یہی ہے زمانہ جدید اس کی روش
تیری نگاہ میں ہے وہ جلوہ کہ جس کے آگے
چراغِ رخِ یار بھی ہیں بے نور و بے ضیا
اٹھا ساقیا اس شرابِ زندگی سے
مجھے مستِ سرمدی کا جام دکھا دے
مجھے ڈوبنا ہے ترے عشق میں ایسا
کہ مثلِ حبابِ صرصر ہوں میں بے کراں میں
تشریح
یہ نظم اقبال کی فلسفیانہ شاعری کا بہترین نمونہ ہے۔
شاعر کہتا ہے کہ ستاروں سے آگے بھی جہان ہیں اور عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔
ہر عمل سے غرض خالی ہونی چاہیے۔ اگر عبادت میں لذت نہیں ہے تو وہ عبادت نہیں ہے۔
زمانہ قدیم اور جدید دونوں کا طریقہ یہی ہے۔
شاعر کی نظر میں وہ جلوہ ہے جس کے سامنے محبوب کا چہرہ بھی بے نور ہو جاتا ہے۔
وہ ساقی سے شراب زندگی اٹھانے اور مست سرمدی کا جام دکھانے کی درخواست کرتا ہے۔
English Translation
"Beyond the stars, there are still more worlds
There are still more tests of love ahead
Your every action is empty of purpose
Worship is tasteless if it doesn't delight you
This is the way of the ancient times
This is the method of the modern era
In your sight is that splendor before which
The lamp of the beloved's face seems dim
O cupbearer, raise this wine of life
Show me the cup of eternal intoxication
I want to drown in your love so deeply
That I become like a bubble in the endless ocean"
کلام نمبر 10
ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا
ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا
حیات ذوق سفر کے سوا کچھ اور نہیں
تیری منزل ہے چمکتی ہوئی افق پر
تیرا ہر قدم ہے نئی دنیا کی دریافت
تو ہے مسافرِ شب گیر، تو ہے رہبرِ قافلہ
تیری ذات میں ہے وہ قوت کہ جس سے ہلتے ہیں جہان
نہ ڈھونڈ اس طرف کوئی گھر بار تیرا
نہ تلاش اس طرف کوئی آرام تیرا
تیرا کام ہے فقط سفر، فقط سفر
تیری منزل ہے فقط سفر، فقط سفر
اے مسافر! یہی ہے تیری زندگی کا مقصد
کہ تو چلتا رہے ہر لمحہ نئی راہ پر
تشریح
اس نظم میں اقبال مسافر کی صفات بیان کرتے ہیں۔
ہر مقام سے آگے اس کا مقام ہے اور زندگی ذوق سفر کے سوا کچھ نہیں ہے۔
اس کی منزل چمکتی ہوئی افق پر ہے اور اس کا ہر قدم نئی دنیا کی دریافت ہے۔
وہ مسافر شب گیر ہے اور قافلے کا رہبر ہے۔
اس کی ذات میں وہ قوت ہے جس سے جہان ہلتے ہیں۔
اسے گھر بار یا آرام کی تلاش نہیں کرنی چاہیے۔
اس کا کام صرف سفر ہے اور اس کی منزل بھی صرف سفر ہے۔
English Translation
"Beyond every station, there is your station
Life is nothing but the joy of journey
Your destination is shining on the horizon
Every step of yours is the discovery of a new world
You are the night-traveler, you are the guide of the caravan
In your being is that power which moves worlds
Do not seek any home in this direction
Do not search for any rest in this direction
Your work is only journey, only journey
Your destination is only journey, only journey
O traveler! This is the purpose of your life
That you keep walking on new paths every moment"
کلام نمبر 11
شکوہ
کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے
بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ہرجائی ہے
یہ مسلماں ہیں جنہیں ہم دیکھتے ہیں آج کل
ترے نام پہ وہ لیتے ہیں فقط نام خدا کا
نہ وہ علم میں باقی رہے نہ عمل میں
فقط اپنی جہالت پہ ہیں ان کو ناز
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں تو ہے فقط دکھاوا
دل میں نہیں کچھ خوفِ خدا کا
فقط زبان پہ ہے ذکرِ خدا کا
اے خدا! شکوہ ہے تجھ سے مسلماں کی حالت کا
یہ تیرے نام پہ دے رہے ہیں فقط دکھاوا
تشریح
یہ نظم اقبال کے مشہور ترین کلام "شکوہ" کا حصہ ہے۔
اقبال مسلمانوں کی موجودہ حالت پر خدا سے شکوہ کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ مسلمان آج کل صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں۔
ان میں نہ علم باقی رہا ہے نہ عمل، صرف اپنی جہالت پر ناز ہے۔
نماز، روزہ، قربانی اور حج سب دکھاوے کے لیے ہیں۔
دل میں خوف خدا نہیں ہے، صرف زبان پر ذکر خدا ہے۔
English Translation
"Sometimes with us, sometimes with others they befriend
There's no need to speak, you too are promiscuous
These are the Muslims we see today
In Your name they only take God's name
Neither in knowledge nor in deeds they remain
Only on their ignorance they take pride
Prayer, fasting, sacrifice and pilgrimage
All these remain but only for show
In heart there is no fear of God
Only on tongue is God's remembrance
O God! I complain to You about Muslims' condition
In Your name they only give pretense"
کلام نمبر 12
جواب شکوہ
کہو تو مانوں کہ تجھ کو بھی ہے شکایت مجھ سے
مگر یہ بتا کہ تیری کیا شکایت ہے مجھ سے
تھا تو میں اپنے زمانے کا امامِ اولیں
اب کیا سبب کہ تو ہے مسلماں میں آخر یں
تجھ کو معلوم ہے کیا تھا حکمِ الہی
کہ کر سکوں گا تجھے میں امامِ زمانہ
مگر شرط تھی یہ کہ تو رہے گا مسلماں
نہ ہو گا تو فقط نام سے مسلماں
تو نے چھوڑا ہے وہ عہدِ وفا کیا
اب تو ہے فقط ظاہر کا پابند رہا کیا
اے مسلماں! ذرا سوچ اپنے آپ کو
کہیں تو خود ہی تو نہیں ہے قصور وار
تشریح
یہ نظم "شکوہ" کا جواب ہے جس میں خدا مسلمان سے مخاطب ہوتا ہے۔
خدا کہتا ہے کہ تم پہلے زمانے کے امام تھے، اب تم مسلمانوں میں آخری کیوں ہو؟
تمہیں معلوم تھا کہ میں تمہیں امام زمانہ بناؤں گا۔
لیکن شرط یہ تھی کہ تم مسلمان رہو گے، صرف نام کے مسلمان نہیں رہو گے۔
تم نے وفا کا عہد چھوڑ دیا ہے اور اب صرف ظاہر کے پابند رہ گئے ہو۔
English Translation
"Say, I accept that you also have complaint against me
But tell me what is your complaint against me?
You were the first Imam of your time
Now what is the reason you are last among Muslims?
Do you know what was God's command?
That I will make you the Imam of the era
But the condition was that you will remain Muslim
You will not be Muslim only in name
You have broken that covenant of faithfulness
Now you are only bound to appearances
O Muslim! Think about yourself a little
Perhaps you yourself are at fault"
کلام نمبر 13
بندہ مومن
بندہ مومن کی با تو سنو عجیب ہے
اس کی ہر بات میں حکمت کی کلیاں کھلی ہیں
اس کی خودی ہے شاہین کی مانند بلند
اس کے ارادے ہیں پہاڑوں کو ہلا دینے والے
وہ ہے خلیفۂ خدا اس جہان میں
اس کی نظر میں ہے ہر شے کا راز پوشیدہ
اس کے دل میں ہے عشقِ رسول کی گرمی
اس کی زبان پہ ہے ہمیشہ ذکرِ خدا
وہ ہے صاحبِ علم و عمل کا پیکر
اس کے سینے میں ہے دنیا کی ہر آگ کی تپش
بندہ مومن کی یہی پہچان ہے دنیا میں
کہ اس کے دل میں ہے عشقِ حقیقی کی کرن
تشریح
اس نظم میں اقبال مومن کی صفات بیان کرتے ہیں۔
مومن کی ہر بات میں حکمت کی کلیاں کھلی ہوئی ہیں۔
اس کی خودی شاہین کی مانند بلند ہے اور اس کے ارادے پہاڑوں کو ہلا دینے والے ہیں۔
وہ خدا کا خلیفہ ہے اور اس کی نظر میں ہر شے کا راز پوشیدہ ہے۔
اس کے دل میں عشق رسول کی گرمی ہے اور زبان پر ہمیشہ ذکر خدا ہے۔
وہ علم و عمل کا پیکر ہے اور اس کے سینے میں دنیا کی ہر آگ کی تپش ہے۔
English Translation
"Listen to the story of the faithful servant, it is strange
In his every word, blossoms of wisdom bloom
His self is lofty like an eagle
His determinations can shake mountains
He is God's vicegerent in this world
In his sight are hidden the secrets of everything
In his heart is the warmth of love for the Prophet
On his tongue is always the remembrance of God
He is the embodiment of knowledge and action
In his chest is the heat of every fire in the world
This is the identity of the faithful servant in the world
That in his heart is the ray of true love"
کلام نمبر 14
طلب
مجھے اس راز سے آگاہ کر دے
کہ تجھے کیا ملا اس جہان میں
تیری ذات میں ہے وہ کون سی بات
کہ تیرے نام سے ہیں سب خوف زدہ
تو ہے خاکی مگر تیری نظر میں
سما گئے ہیں آسمان سارے
تیرے دل میں ہے وہ کون سا راز
کہ تیری ہر صدا سے ہلتے ہیں جہان
مجھے بتا دے اے پروردگار
کہ تیری عظمت کا راز کیا ہے
میں چاہتا ہوں جاننا تجھے
کہ تو ہے کون، تیری ذات کیا ہے
تشریح
اس نظم میں اقبال خدا سے اس کے رازوں سے آگاہی کی درخواست کرتے ہیں۔
وہ پوچھتے ہیں کہ خدا کو اس جہان میں کیا ملا ہے۔
اس کی ذات میں کون سی بات ہے کہ اس کے نام سے سب خوف زدہ ہیں۔
وہ خاکی ہے مگر اس کی نظر میں سارے آسمان سما گئے ہیں۔
اس کے دل میں کون سا راز ہے کہ اس کی ہر صدا سے جہان ہلتے ہیں۔
وہ خدا سے اس کی عظمت کا راز جاننا چاہتے ہیں۔
English Translation
"Make me aware of that secret
What did You gain in this world?
What is that thing in Your being
That everyone is frightened by Your name?
You are earthly but in Your sight
All the heavens are contained
What is that secret in Your heart
That worlds shake with Your every call?
Tell me, O Lord
What is the secret of Your greatness?
I want to know You
Who are You, what is Your essence?"
کلام نمبر 15
عشق
عشق ہے زندگی کی حقیقت کا نام
عشق ہے موت سے بھی زیادہ قوی
عشق ہی وہ قوت ہے جس کے بل پر
چلتی ہے یہ ساری کائنات
عشق ہی وہ آگ ہے جس میں جل کر
خاک کے ذرے بن جاتے ہیں سونا
عشق ہی وہ دریا ہے جس میں ڈوب کر
انسان بن جاتا ہے خدا کا خلیفہ
عشق ہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر
پہنچا جا سکتا ہے مقامِ وصال
عشق ہی وہ دولت ہے جس کے بغیر
زندگی ہے فقط ایک بے معنی سی بات
تشریح
اس نظم میں اقبال عشق کی حقیقت بیان کرتے ہیں۔
عشق زندگی کی حقیقت کا نام ہے اور موت سے بھی زیادہ قوی ہے۔
عشق وہ قوت ہے جس کے بل پر ساری کائنات چلتی ہے۔
عشق وہ آگ ہے جس میں جل کر خاک کے ذرے سونا بن جاتے ہیں۔
عشق وہ دریا ہے جس میں ڈوب کر انسان خدا کا خلیفہ بن جاتا ہے۔
عشق وہ راستہ ہے جس پر چل کر مقام وصال تک پہنچا جا سکتا ہے۔
English Translation
"Love is the name of life's reality
Love is stronger than death itself
Love is that power on whose strength
This entire universe moves
Love is that fire in which by burning
Particles of dust become gold
Love is that river in which by drowning
Man becomes God's vicegerent
Love is that path on which by walking
One can reach the station of union
Love is that wealth without which
Life is just a meaningless thing"
کلام نمبر 16
خودی
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
خودی کی نگہبانی کر اے بشر کہ یہی
ہے اصلِ حیاتِ انسانی کا رازِ دَرُون
اگر ہو عشق تو ہے تیرا جہانِ دگر
ورنہ یہ دنیا ہے فقط ایک خوابِ پریشاں
خودی کا سرِ نہاں لا الہ الا اللہ
خودی ہے تیغ فساں لا الہ الا اللہ
اپنی خودی پہ ہو نکہت اگر نمودار
پھر تجھ میں ہو گا وہی جلوہ کہ جس کا ہے ظہور
تشریح
یہ نظم اقبال کے فلسفہ خودی پر مبنی ہے۔
خودی کو اس قدر بلند کرنا چاہیے کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے پوچھے۔
یہ راز کسی کو معلوم نہیں کہ مومن قاری نظر آتا ہے حقیقت میں وہ خود قرآن ہے۔
خودی کی نگہبانی کرنی چاہیے کیونکہ یہی انسانی زندگی کا راز ہے۔
اگر عشق ہو تو تیرا جہان دوسرا ہے ورنہ یہ دنیا صرف پریشان خواب ہے۔
خودی کا پوشیدہ راز "لا الہ الا اللہ" ہے۔
English Translation
"Elevate your self so high that before every destiny
God Himself asks His servant: Tell me what is your wish?
This secret is unknown to anyone that the believer
Appears as a reciter but in reality is the Quran
Guard your self, O human, for this alone
Is the secret within the essence of human life
If there is love, then you have another world
Otherwise this world is just a scattered dream
The hidden secret of self is 'There is no god but Allah'
The self is the annihilating sword 'There is no god but Allah'
If the fragrance manifests on your self
Then in you will be that manifestation which appears"
کلام نمبر 17
مسجد قرطبہ
مسجد قرطبہ کے اندھیرے میں
چمک رہا ہے وہ نورِ ازل آج بھی
اس کے ستونوں میں ہے وہی راز پوشیدہ
جو تھا مسلماں کے دل میں کبھی
یہ مسجد ہے فقط پتھر کی عمارت نہیں
یہ ہے مسلماں کے عروج کی داستان
اس کے میناروں میں گونجتی ہے وہ آواز
جو لے کر آئے تھے مسلماں یہاں
اے مسلماں! ذرا دیکھ اس مسجد کو
تجھے معلوم ہو گا تیرا کیا مقام تھا
یہ مسجد ہے تیری عظمت کی نشانی
یہ بتاتی ہے تیری شانِ رفتہ کا احوال
تشریح
یہ نظم مسجد قرطبہ کے بارے میں ہے جو اسپین میں مسلمانوں کے عروج کی علامت ہے۔
مسجد قرطبہ کے اندھیرے میں آج بھی وہ نور ازل چمک رہا ہے۔
اس کے ستونوں میں وہی راز پوشیدہ ہے جو مسلمان کے دل میں تھا۔
یہ مسجد صرف پتھر کی عمارت نہیں بلکہ مسلمانوں کے عروج کی داستان ہے۔
اس کے میناروں میں وہ آواز گونجتی ہے جو مسلمان یہاں لے کر آئے تھے۔
یہ مسجد مسلمانوں کی عظمت کی نشانی ہے۔
English Translation
"In the darkness of Cordoba Mosque
That eternal light still shines today
In its pillars is hidden that same secret
Which was once in the Muslim's heart
This mosque is not just a stone structure
It is the tale of Muslim's ascendancy
In its minarets echoes that voice
Which Muslims brought here
O Muslim! Look at this mosque
You will know what your status was
This mosque is the symbol of your greatness
It tells the story of your past glory"
کلام نمبر 18
شاہین
شاہین ہے تو فقط آشیانہ تیرا
آسمان ہے تیرا میدانِ عمل
تو نہیں ہے پرندۂ بے مہر و وفا
تیرا ہر لمحہ ہے نئی منزل کا پیام
تجھ کو چاہیے فقط پرواز کی لذت
تجھ کو ڈھونڈنا نہیں ہے آرام کا سامان
تو ہے مسافرِ شب گیر، تو ہے رہبرِ قافلہ
تیرا کام ہے فقط سفر، فقط سفر
شاہین کی طرح ہو تیری زندگی بھی
ہو تیرا ہر لمحہ نئی راہ کی دریافت
اے جوان! تو بھی بن جا شاہین کی مانند
چھوڑ دے دنیا کے جھوٹے آرام و سکون
تشریح
اس نظم میں اقبال شاہین کو نوجوانوں کے لیے مثال بناتے ہیں۔
شاہین کا آشیانہ صرف اس کا گھر ہے لیکن اس کا میدان عمل آسمان ہے۔
شاہین بے مہر و وفا پرندہ نہیں ہے، اس کا ہر لمحہ نئی منزل کا پیام ہے۔
اسے صرف پرواز کی لذت چاہیے، آرام کا سامان نہیں۔
وہ مسافر شب گیر ہے اور قافلے کا رہبر ہے، اس کا کام صرف سفر ہے۔
نوجوانوں کی زندگی بھی شاہین کی مانند ہونی چاہیے۔
English Translation
"If you are an eagle, only the nest is yours
The sky is your field of action
You are not a bird without affection and loyalty
Your every moment is a message of new destination
You should desire only the pleasure of flight
You should not seek means of comfort
You are the night-traveler, you are the guide of caravan
Your work is only journey, only journey
May your life be like the eagle's
May your every moment discover new paths
O youth! You too become like the eagle
Leave the false comfort and peace of the world"
کلام نمبر 19
فقر
فقر ہے میری امتی کی شان
فقر ہے میری امتی کی پہچان
فقر ہے وہ دولت کہ جس کے بغیر
زندگی ہے فقط ایک بے معنی سی بات
فقر ہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر
پہنچا جا سکتا ہے مقامِ وصال
فقر ہی وہ آئینہ ہے جس میں دیکھ کر
انسان دیکھ سکتا ہے اپنا چہرہ
فقر ہی وہ نور ہے جس سے روشن
ہو جاتے ہیں دل کے اندھیرے راستے
اے مسلماں! تیری پہچان ہے فقر
فقر ہی تیری شان، فقر ہی تیری آن
تشریح
اس نظم میں اقبال فقر کی اہمیت بیان کرتے ہیں۔
فقر امت محمدی کی شان اور پہچان ہے۔
فقر وہ دولت ہے جس کے بغیر زندگی بے معنی ہے۔
فقر وہ راستہ ہے جس پر چل کر مقام وصال تک پہنچا جا سکتا ہے۔
فقر وہ آئینہ ہے جس میں انسان اپنا چہرہ دیکھ سکتا ہے۔
فقر وہ نور ہے جس سے دل کے اندھیرے راستے روشن ہو جاتے ہیں۔
English Translation
"Poverty is the glory of my nation
Poverty is the identity of my nation
Poverty is that wealth without which
Life is just a meaningless thing
Poverty is that path on which by walking
One can reach the station of union
Poverty is that mirror in which by looking
Man can see his own face
Poverty is that light by which
The dark paths of heart become illuminated
O Muslim! Your identity is poverty
Poverty is your glory, poverty is your dignity"
کلام نمبر 20
پیام مشرق
اے مشرق کے باشندو! ذرا سنو میری بات
تمہیں معلوم ہے کیا ہے تمہاری حقیقت
تم ہو وارثِ انبیا کی میراث کے
تمہارے پاس ہے علم و حکمت کا خزانہ
تمہیں چھوڑ کر گیا ہے رسولِ خدا
وہ علم جس سے روشن ہوئی تھی دنیا
مگر تم نے کیا اس علم کو پایا فراموش
تم بن گئے ہو فقط ظاہر کے پجاری
اٹھو اور پھر سے حاصل کرو وہ علم
جو تمہیں بنائے گا پھر سے امامِ زمانہ
مشرق کا پیام ہے یہی دنیا کو
کہ علم و عمل ہیں زندگی کی بنیاد
تشریح
یہ نظم مشرق کے باشندوں کے نام اقبال کا پیام ہے۔
وہ مشرق کے باشندوں سے کہتے ہیں کہ وہ انبیا کی میراث کے وارث ہیں۔
ان کے پاس علم و حکمت کا خزانہ ہے جو رسول خدا نے چھوڑا تھا۔
لیکن انہوں نے اس علم کو فراموش کر دیا ہے اور صرف ظاہر کے پجاری بن گئے ہیں۔
انہیں پھر سے وہ علم حاصل کرنا چاہیے جو انہیں پھر سے امام زمانہ بنائے گا۔
مشرق کا پیام یہی ہے کہ علم و عمل زندگی کی بنیاد ہیں۔
English Translation
"O inhabitants of the East! Listen to my words
Do you know what is your reality?
You are heirs to the legacy of prophets
You possess the treasure of knowledge and wisdom
The Messenger of God left for you
That knowledge which illuminated the world
But you have forgotten that knowledge
You have become worshippers of only appearances
Arise and acquire that knowledge again
Which will make you again the Imam of the era
This is the message of East to the world
That knowledge and action are the foundation of life"

EmoticonEmoticon