New Novel Of 2022 The journey from love to reality 🤫🤫🤫🤫🤫episode #8
محبت سے حقیقت کا سفر
رائٹرسدرہ یاسین
#8قسط نمبر
ماہ نور نم آنکھوں سے ماں کی طرف دیکھنے لگی،اچھا خالہ میں اب چلتی ہوں،ارے تانیہ بیٹی ناشتہ کر کے چلی جاتی،ابھی تو آئی ہو،پتہ نہیں آج کل کے بچوں کو کس چیز کی جلدی رہتی،نہیں خالہ کوئی جلدی نہیں بس پھر آتی ہوں،اچھا اپنی اماں کو میرا سلام کہنا،تانیہ جیسے معاملے کو مزید ہوا نہیں دینا چاہتی تھی،اس وجہ سے جلدی ہی وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئی،ورنہ اس کی اور ماہ نور کی باتیں تو کبھی ختم ہوتیں ہی نہیں تھیں،امی،مجھے پڑھنا ہے پلیز امی میرے ساتھ یہ ظلم نا کریں میں اپنی تعلیم نہیں چھوڑنا چاہتی،خدا کا واسطہ ہے آپ کو،ہاں بھئی صبح صبح کیا باتیں ہو رہی ہیں دونوں ماں بیٹی میں،بابا؛بابا دیکھیں نا امی،امی مجھے آگے پڑھنے سے روک رہی ہیں،پلیز بابا مجھے پڑھنا ہے🔥سلطان صاحب کمرے کے پاس سے گزر رہے تھے کہ ان دونوں کی باتیں بھانپ کر اندر چلے آئے،ارے کس نے کہا میری بیٹی آگے نہیں پڑھ سکتی؟اور کیوں!بھئی،،ماہ نور بیٹا تم نے جتنا پڑھنا ہے پڑھ سکتی ہو،اور ہاں نبیلہ،ایک بات کان کھول کر سن لو،آئیندہ سے اس بات کا ذکر نہیں ہونا چاہئے گھر پر،باہر والوں کی باتیں کیا کم ہیں جو تم سب اس ایک ہی بات کو بار بار گھر میں بھی دوہراتے رہتے ہو،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کو میرے بھائیوں کو عدالتوں میں نہیں گھسیٹنا چاہیئے تھا،عیشا کے ابو!رابعہ کے اندر خاندان کا خون گردش کر رہا تھا اور بھائیوں پر شوہر کی طرف سے کے گئے کیس کے متعلق جبار کو ڈھکے چھپے لفظوں میں کیس واپس لینے کا مشورہ دے رہی تھی،کچھ بھی ہو دو بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی اور تینوں بہن بھائیوں کا آپس میں بہت پیار خلوص رہا تھا پر اب درمیان میں کہیں سے یہ زمین اور دولت آگئی تھی،تمہیں کچھ نہیں پتہ رابعہ پہلے یہ حصہ لینا ہمارے لیے ضروری تھا لیکن اب یہ میرے لئے مجبوری بن چکی ہے ،گھر میں پڑے اپنے نوجوان بیٹے کا علاج کہاں سے کرواوں میں؟دو ماہ ہونے کو آۓ ہیں،میرے پاس جو رقم تھی وہ میں لگا چکا ہوں اور اب ڈاکٹر کہتے ہیں آپریشن کے لیے باہر کے ملک لے جانا ہوگا،کاروبار بھی نفی میں چل رہا ہے،سب الٹ پلٹ ہو گیا ہے،کیا سوچا تھا اور کیا ہو گیا ہے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آرہا،جبار بیوی کے سامنے باری باری سارے مسئلے رکھتا جا رہا تھا اور رابعہ بھی غور سے سب سن رہی تھی اور بدلے میں ہاں ہممم کے علاوہ کوئی الفاظ اس سے نہیں بن پا رہے تھے،۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔امی آپ کو پتہ ہے؟نیلم نے مجھے بتایا کہ سلطان چاچو نے ماہ نور آپی کو دوبارہ کالج جانے اور پڑھنے کو کہہ دیا ہے،ارم ہمیشہ کی طرح ہر خبر ماں تک پہنچانے کی روایت برقرار رکھتے ہوئے نسرین بیگم کو بتا رہی تھی کہ اتنے میں سکندر صاحب بھی اخبار ہاتھ میں لیے صحن میں پڑی چارپائی پہ آبیھٹے جو کی ان کرسیوں سے قدرے فاصلے پر پڑی تھی جن پر نسرین اور ارم بیٹھی باتیں بھنگار رہی تھیں ,سن رہے ہیں اپنے لاڈلے بھائی کے ابھی بھی اپنی بد چلن بیٹیوں سے لاڈ پیار کے قصے،ابھی بھی ان کو اجازت دی جا رہی ہے کے جاؤ اور لڑکوں میں بیٹھ کر پڑھائیاں کرو،نا کونسی قیامت آ جائے گی کہ سلطان کی بیٹیاں تھوڑی سی کم پڑھی لکھی رہ گئیں تو،یہ تو چلو اپنے گھر کا لڑکا تھا یاسر جو اس نے آپ کے حوالے کیا ماہ نور کو،بتائیں ذرہ اگر باہر کے کسی لڑکے کے ساتھ مل کر یہ گل کھلاتی وہ تو،نتیجہ کیا نکلنا تھا؟گھر سے بھاگی ہوئی لڑکیوں کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوتا؛نسرین مسلسل بول رہی تھی اور سکندر تایا سے اب اور برداشت نہیں ہو رہی تھیں،بس کر دو نسرین جس کالج میں ماہ نور پڑھتی ہے،ہماری ارم بھی تو وہیں پڑھ رہی ہے،کیا اس کی دفعہ اس کالج میں لڑکے نہیں ہوتے؟باپ کی یہ بات سنتے ہی پاس بیٹھی ارم کے چہرے کا رنگ ایک دم سے ہلدی مائل ہوگیا،اور ہاں،، اگر یاسر گھر کا بچہ ہوتا یا جبار اور رابعہ ہمارے سگے ہوتے تو صورتحال ہرگز یہ نا ہوتی،ارم!خیالوں میں گم سم بیٹھی ارم اچانک سے باپ کی آواز کانوں میں پڑنے سے چونکی تھی،ارم تم پریشان نا ہوا کرو بیٹا اور نہ ہی چھوٹی چھوٹی باتیں اپنی ماں کو بتایا کرو،جاو اور میرے لیے ایک کپ چائے بنا کر لاؤ،جی جی ابوارم کے لہجے میں کپکپاہٹ سی تھی اور وہ اٹھ کر کچن کی طرف جانے لگی تھی کے سکندر نے پھر اسے آواز دے کر رکنے کو کہا'آئندہ تم اور ماہ نور دونوں ساتھ ساتھ جایا کرو گی کالج اور اس سے زیادہ تمہیں اپنا خیال رکھنا ہے اور ساتھ اس کا بھی،جی ابو،جاو اب چائے لاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسلام علیکم امی!وعلیکم سلام آگئے عمر بیٹا تم،اب ذرہ جاؤ اور اپنی لاڈلی کو مناؤ جا کر،رات بھر مجھ سے پوچھتی رہی ہے بھائی کب آئیں گے؟امی بھائی کیوں نہیں آئے؟مجال ہے جو یہ لڑکی چوبیس گھنٹے تمہارے بغیر کبھی کاٹ لے،صائمہ بیگم دوپہر کے کھانے کی لئے سبزی کاٹ رہی تھیں اور عمر کو راہداری سے اندر داخل ہوتے ہی فارعہ کے کمرے میں جانے کو کہا،اچھا امی میں دیکھ لیتا ہوں اس کو بھی پہلے فریش ہو جاوں بہت تھک گیا ہوں یہ چوبیس چوبیس گھنٹے کی ڈیوٹی بھی تھکا کے رکھ دیتی ہے،پر کیا کریں ڈیوٹی تو ڈیوٹی ہے،خیر میں مناتا ہوں اس کو،اچھا ناشتہ بنا دوں؟نہیں امی ناشتہ میں نے کر لیا تھا صبح ہی،عمر آخری سیڑھی پر تھا،،اور بنا پیچھے مڑے جواب دے کر آگے بڑھا ہی تھا کہ دوبارہ صائمہ بیگم کی ہلکی سی آواز اس کے کانوں میں پڑی ہمیشہ کی طرح اس نے آج بھی کچھ نہیں کھایا؛امی اس کو کھلا دیا کریں پلیز میرا تو اپ کو پتہ ہی ہے کبھی کس وقت واپسی ہوتی کبھی کس وقت،کبھی نہیں بھی آپاتا میں گھر واپس،عمر الٹے پاوں ہی آدھی سیڑھیوں پہ آکھڑا ہوا تھا،اچھا نہا لو بہن کے ساتھ دوبارہ کرلینا ناشتہ میں بنانے لگی ہوں،صائمہ بیگم سبزی اور چھری وغیرہ میز پر سے اٹھانے لگیں،عمر اوپر کی منزل پہ چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
New Novel Of 2022 The journey from love to reality 🤫🤫🤫🤫🤫episode #7
محبت سے حقیقت کا سفر
رائٹرسدرہ یاسین#7قسط نمبر
بابا،یہ دیکھیں عدالت سے زمین کا کوئی نوٹس آیا ہے،اسامہ بڑے بڑے قدم بھرتا سلطان صاحب کے پاس آکھڑا ہوا تھا اور خاکی لفافہ کھولنے لگا،
اس کو بعد میں پڑھنا پہلے اپنے تایا کو بلا کر لاؤ جلدی سے،وہ بڑے ہیں بہتر سمجھتے ہیں،اور کچھ حد تک تو مجھے اندازہ ہو گیا ہے کہ یہ کس قسم کا نوٹس ہو سکتا،ضرور تمہارے جبار پھوپھا نے مقدمہ دائر کیا ہوگا
کہا تھا میں نے سکندر بھائی سے اور تمہیں بھی سمجھایا تھا کہ یہ ان کا حق ہے انہیں دے دو،اور رہی بات رشتے کی تو میں نے اپنی بچی کا رشتہ زمین ہڑپنے کے لیے نہیں کیا تھا،
اسامہ سلطان صاحب کی باتوں پر سر جھکائے کھڑا تھا،جاؤ اسامہ بلا کر لاؤ اپنے سسر کو،نبیلہ کا لہجہ قدرے سخت تھا، اس کو ویسے بھی اسامہ اور شہناز کی شادی سے کبھی کوئی خاص لگاؤ نہیں رہا تھا،یہ شادی تو ماہ نور کی بے جا ضد اور سلطان صاحب کے اپنے بھتیجے اور بھتیجیوں سے لاڈ پیار کی وجہ سے ہوئی تھی،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارشد تم کیوں ناراض ہو مجھ سے،ماہ نور آپی اور یاسر بھائی نے جو کیا ہے اس میں میں کہاں قصور وار ٹھہرتی ہوں،خبردار عیشا!سارا قصور تمہارے بھائی کا ہے،میں اپنی بہن کے خلاف اب ایک بھی لفظ نہیں سنوں گا،لیکن ارشد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا لیکن؟ ہم دونوں کا بھی تو باقاعدہ رشتہ ہوا تھا،کیا میرے کہنے پہ تم کچھ نہیں کرتی؟لیکن نہیں،میری اور تمہارے بھائی کی تربیت میں خاصا فرق ہے،ارشد۔۔۔۔عیشا! آئندہ اگر اس قسم کی کوئی فضول بات کرنی ہو تو مجھ سے کوئی رابطہ نا کرنا،فون رکھ رہا ہوں،ارشد میری بات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عیشا سر جھٹک کر موبائل کی سکرین کو دیکھنے لگی،جو کہ کال ڈراپ ہونے کے بعد پوری طرح روشن ہو رہی تھی،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہ نور!میری جان کیا حال بنا لیا ہے تم نے کچھ ہی دنوں میں،اور ہر وقت کمرے میں بیٹھی رہتی ہو،باہر نکلو، گھلو ملو بات کرو ہم سب سے،کیا ہوگیا ہے،شہناز کی بات ابھی جاری ہی تھی کہ اس کی آنکھوں میں پھر سے آنسوؤں کا گہرا سمندر امڈ آیا تھا،
بھابھی،میں نے جب محبت کی عینک اتار کر ان چہروں کو دیکھا ۔۔۔۔ جن سے مجھے محبت تھی تب نظر آ یا ۔۔۔۔ان مِیں کچھ ایسا خاص نہیں تھا جس کی وجہ سے وہ دنیا کے سب سے خوبصورت چہرے ٹھہرتے۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی کی ناک موٹی تھی تو کسی کی آنکھ چھوٹی۔۔۔۔۔ ویسی ہی خامیاں جیسی ہر انسان میں ہوتی ہیں۔۔۔۔ ۔کسی کو بات سمجھ نہیں آتی تو کوئی بات سمجھنا نہیں چاہتا۔۔۔۔ سات ارب لوگوں جیسے چند لوگ۔یہ تو میری محبت تھی جو ان کو خاص بناتی تھی ۔۔۔ ورنہ وہ بھی بس لوگ ہی تھے۔۔۔۔۔ اور جب میں نے محبت کی عینک کے بغیر وہ چہرے ایک بار دیکھ لئے تو وہ بھی اتنے ہی اجنبی تھے ۔۔۔۔۔ جتنے دنیا کے دوسرے چہرے۔۔۔۔ چہروں کو خاص دیکھنے والی آنکھ بناتی ہے ۔۔۔۔۔ چہرہ بذات خود خاص نہیں ہوتا۔۔۔۔ محبوب چہروں کو محبت کرنے والی آنکھ کا شکر گزار ہونا چاہیے...لیکن بھابھی دیکھیں میں نے تو صرف محبت کی خاطر یہ قدم اٹھایا،پر اصل میں تو یہ محبت ہوتی ہی نہیں شاید،یا شاید میری قسمت میں وفا نہیں لکھی گئی تھی،ورنہ جتنی محبت میں نے کی ہےاتنی تو وہ بھی کرتا تھا،پر اصل میں انسان سےانسان کی محبت سراب ہے،کون کب کہاں کیسے بدل جائے پتا ہی نہیں چلتا،اچھا چپ ہو جاو بس بہت ہو گئے آنسوں،ماہ نور مسلسل رو رہی تھی جب کے شہناز بھابھی اس کا ہاتھ تھامے اسے دلاسے دے رہی تھی،
؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
کیسی ہو خالہ؟
ارے تانیہ تم کب واپس آئی اپنے ننھال سے ؟
بس کل شام ہی آئی،مجھ سے تو صبر ہی نہیں ہو رہا تھا اس لیے صبح صبح ہی چلی آئی ماہ نور سے ملنے،نبیلہ خالہ کیا میں ماہ نور سے مل سکتی ہوں؟کیا وہ ہمیشہ کی طرح ابھی تک سو رہی ہے!میں جگا دوں اس کو؟
اف میرے خدایا یہ لڑکی بھی نا!تانیہ باتیں کرتی کرتی تھک نہیں رہی تھی اور ساتھ ہی ماہ نور کے کمرے کی طرف بڑھ رہی تھی،نبیلہ اس کو صبع سویرے دیکھ کر مسکرا رہی تھی،کیوں کہ وہ ہمیشہ ہی ایسے تیزگام کی طرح آتی تھی اور ماہ نور اور وہ ایک ساتھ سکول اور اب کالج جایا کرتی تھیں،تانیہ چونکہ کافی دن بعد واپس آئی تھی تو شاید اسے اس حادثے کا پتہ نہیں تھا جو اس کی
دوست کی زندگی سے تمام رونقیں چھین چکا تھا
۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
بھائی آپ آگئے؟
ارے فارعہ!
تم سوئی نہیں بیٹا؟ابھی تک کیوں جاگ رہی میری پری بہن،بتاو کیا بات ہے؟ وہ اب بہن کے پاس ہی آبیٹھا تھا،،
عمر ڈیوٹی سے تھکا ہارا گھر داخل ہوا تو سامنے راہداری میں بیٹھی فارعہ جیسے اس کی منتظر بیٹھی تھی،ہلکی ،ہلکی داڑھی،نیم گندمی رنگت ،گہری آنکھیں،گھنے سیاہی مائل بال جو پی کیپ پہننے کے بائث قدرے پیچھے کو مڑے ہوئے تھے،شرٹ کے کف آدھے فولڈ کیے ہوئے تھے جوکہ ہمیشہ کی عادت میں شامل تھے،
فاری تم یہاں اکیلی کیوں ائی اور کیسے؟
اگر سیڑھیوں سے پھسل جاتی یا تمہیں کچھ ہوجاتا تو بتاو پھر کیا ہوتا،اور امی کہاں ہیں؟
کچھ نہیں ہوتا بھائی مجھے،اور امی سوئی ہوئی تھیں تو میں چپکے چپکے باہر آگئی،اب ایسے ہی چپکے سے واپس جا کر سو جاوں گی،امی کو پتہ بھی نہیں چلے گا ،میرے کمرے سے آپکے کمرے تک نو قدم چلنے ہوتے،،باہر صحن کے لیے چھتیس قدم چلنے ہوتے،کچن کے لیے بس آٹھ قدم،فارعہ مسلسل تفصیل بتا رہی تھی جب کے عمر مسکرا رہا تھا کیوں کہ صائمہ بیگم سیڑھیوں پہ کھڑی دونوں بچوں کی باتیں غور سے سن رہی تھی،وہ شاید عمر کے گھر آنے پر ،نوکر کے دروازہ کھولنے کی آواز سن کر جاگ گئی تھی،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہ نور یہ کیا بات کر رہی ہو،کب ہوا یہ سب؟
اور مجھے بتانا بھی گوارہ نہیں ہوا تم سے؟اچھا جب ہی میں کہوں اماں مجھے تمہاری طرف آنے سے منع کیوں کر رہی تھی،اچھا اب میں چلتی ہوں کل کالج میں ملاقات ہوتی پھر، نیلم اور نبیلہ کو کمرے میں آتے دیکھ کر تانیہ بات چھپانے لگی،
ماہ نور اب کالج نہیں جائے گی،نبیلہ کی آواز سن کر ماہ نور نم آنکھوں سے ماں کی طرف دیکھنے لگی۔
جاری ہے✍️
New Novel Of 2022 The journey from love to reality 🤫🤫🤫🤫🤫episode #6
محبت سے حقیقت کا سفر
رائٹرسدرہ یاسین#6قسط نمبر
وہ دعا کی سی صورت میں اللہ سے باتیں کر رہی تھی
امی!،بابا،بھائی،امی
وہ ماہ نور،کیا ہوا ماہ نور کو،وہ بابا،ماہ نور کمرے میں نہیں ہے،مجھے لگتا ہے پھر سے کسی ک ساتھ بھاگ،چپ ہو جاو نیلم،بس کر دو،وہ بیچاری باہر صحن میں عبادت کر رہی ہے،میں کچھ دیر پہلے باہر نکلی تو جاءنماز پہ بیٹھی رو رو کر اپنے کیے کی معافیاں مانگ رہی تھی،
،شہناز نے نیلم پر تیزی سے لفظوں کی برسات شروع کردی
وہ اس وقت ان کی تایا زاد یا بھابھی نہیں لگ رہی تھی،ماہ نور کی بچپن کی دوست لگ رہی تھی،اور پھر کچھ سہیلیاں تو بہنوں سے بھی بڑھ کر ہوتی ہیں'
نیلم کیا بے وقوفی ہے یہ،جاو کمرے میں تم،
شہناز !ماہ نور کو کمرے میں چھوڑ کر آو،باہر سردی ہے بہت کہیں بیمار نا پڑ جائے،اسامہ اپنے ہمیشہ جیسے سخت لہجے میں کہ کر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا،
سنیے آپ اتنی ٹھنڈ میں باہر مت جائیں،ڈاکٹر نے منع کیا ہے اچانک باہر جانے سے،شہناز اس کو اندر لے آئے گی،نبیلہ،سلطان صاحب کو واپس کمرے کی طرف جانے کا کہنے لگی اور شہناز باہر کی طرف ماہ نور کو بلانے چلی گئی،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچھا امی میں چلتا ہوں ڈیوٹی پہ،،ارے!بیٹا ناشتہ تو کرتے جاؤ،نئی امی بھوک نئیں ہے،وہیں پہ کچھ کھا لوں گا،اور ہاں،امی مجھے شام میں دیر ہو جائے گی آج ایک ریڑ ہے،آپ فاری کا پلیز خیال رکھیے گا،
عمر میری بات سنو بیٹا پہلے،بیٹھو ادھر،امی!!
اچھا بولیں کیا کہنا ہے آپ نے،عمر جلدی جلدی کھانے کی میز کے ساتھ لگی کرسیوں میں سے ایک کرسی پیچھے کر ک بیٹھ گیا اور صائمہ بیگم کی طرف کان کرکے کہنے لگا،جی تو میری پیاری امی کیا فرما رہیں تھیں آپ،عمر بیٹے بس اب بہت ہو گیا،خاندان کی کوئی اچھی سی لڑکی دیکھ کر شادی کے لئے ہاں کردو،ننیھال سے تو تمہیں ویسے ہی اللہ واسطے کا بیر ہے،ورنہ کیا کمی ہے میری بھانجی اور بھتیجیوں میں،گھر میں ایک عدد نابینا بہن ہے تمہاری،کل کو اگر میری انکھیں بند ہوجاتی ہیں تو بتاو،فارعہ کی دیکھ بھال کون کرے گا؟
امی آپ جانتی ہیں اچھی طرح،ہمارے خاندان اور نانا ابا کے خاندان،دونوں میں ہی ایسی کوئی لڑکی موجود نہیں جو میری بہن کا خیال رکھے،اور رہی بات میری شادی کی تو آپ جہاں مرضی کروا دیں مجھے پرواہ نہیں لیکن اس بات کی گارنٹی دے دیں کہ میری بہن کی دیکھ بھال اچھی ہوگی،
عمر صائمہ بیگم کو اپنے تھانے داروں والے لہجے میں
سمجھانے لگا،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ی
خدا کا شکر ہے میرے رضا کے امتحان ختم ہوگئے،ورنہ میرا بچہ تو ہر وقت پڑھائی میں مصروف رہ رہ کر اپنی صحت کا خیال رکھنا بھی بھول گیا تھا،
سکندر صاحب میں کیا سوچ رہی ہوں،رضا کے امتحان ختم ہو گئے ہیں اور اسامہ اور شہناز بھی آئے ہوئے ہیں،تو کیوں نہ گھر پہ کوئی دعوت رکھ لیں،نسرین مسلسل بولے جارہی تھی جبکہ سکندر صاحب ہاتھ میں اخبار لیے اسکی باتوں پر ہاں ہمم کر رہے تھے،،
تو بس ٹھیک ہے میں کل ہی بلا لیتی ہوں اپنے داماد اور بیٹی کو کھانے پہ،
نسرین تائی خوش ہوکر ارم کو کل کے کھانے کا مینیو بتانے لگی،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہ نور،ماہ نور پلیز فون مت رکھنا،ایک بار مجھ سے بات کر لو خدا کے لئے،"تم نے ہم سے دشمنی اور نفرت کا تعلق جوڑا ہے،یاسر! یہ دنیا
محبت کو تو بھلا دیتی ہے پر دشمنی اور نفرت کوئی نہیں بھولتا"
آئندہ کوئی بھی رابطہ کرنے سے پہلے سوچ لیجیے گا کہ میرے لیے آپ اور آپ کے لیے میں مر چکے ہیں،ماہ نور مجھے پلیز ایک بار،ایک بار مجھے معاف کردو،دیکھو میں تمہیں دھوکہ نہیں دینا چاہتا تھا وہ تو بس،
بس کردو یاسر جبار،میرے پاس چھوڑا ہی کیا ہے آپ نے،نہ عزت نا رشتے نا اپنے،بتاؤ مجھے اب اور کیا باقی رہ گیا ہے,
ماہ نور میری بات۔۔۔۔۔۔۔
ماہ نور نے کال کاٹ کر موبائل دیوار پہ اتنی زور سے دے مارا کے موبائل کے ساتھ ساتھ اسکی ہمت بھی جواب دینے لگی،اور آنسوں ٹپک کر گالوں پہ آ کھڑے ہوئے،
بابا! بابا یہ دیکھیں عدالت سے زمین کے متعلق کوئی نوٹس آیا ہے،
اسامہ بڑے بڑے قدم بھرتا سلطان صاحب کے پاس آیا،
جاری ہے✍️
New Novel Of 2022 The journey from love to reality 🤫🤫🤫🤫🤫episode #5
محبت سے حقیقت کا سفر
رائٹرسدرہ یاسین#5قسط نمبر
رابعہ روتے ہوئے ایک دم سے دیوار کے ساتھ جا لگی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امی!خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے،بابا اب بلکل ٹھیک ہیں،اور آج ان کو ہسپتال سے ڈسچارج کر دیا جائے گا،لیکن امی گھر کی بات باہر کیسے نکلی،محلے میں وہ بات پھیل رہی ہے،جب کے تایا ابا اور ہم سب کے علاوہ تو اس رات کے بارے میں کسی کو کچھ علم نہیں تھا،
ارشد پریشان نظروں سے رابعہ کی طرف مسلسل دیکھے جا رہا تھا۔
بیٹا! جو بات تمھاری تائی کو پتہ ہو،بھلا یہ کیسے ممکن کے پورے گاؤں میں نا پھیلے،اور مجھے تو اس بات کا پہلے سے ہی پتا تھا کہ نسرین اور سکندر معاملے کو سلجھانے کی بجائے اور ہوا دیں گے،
مجھے تو یہ سوچ سوچ کر پریشانی ہو رہی کے تمھارے باپ کی تو اتنی عزت تھی گاؤں بھر میں اگرچہ وہ سکندر بھائی سے چھوٹے ہیں لیکن پھر بھی پورا گاؤں تمھارے باپ کو زیادہ عزت دیتا ہے،اب جب یہ بات پھیل رہی ہے تو لوگ کیا کیا باتیں بنائیں گے،
نسرین نے اچھا نہیں کیا یہ بات ہر جگہ پھیلا کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوصلہ کریں اماں!
شکر ہے اللہ نے یاسر بھائی کی جان بخش دی،
ابو: بھائی کیا کبھی نہیں چل پائیں گے؟
عیشا سوالیہ نظروں سے کبھی ماں تو کبھی باپ کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
ابو! بھائی مسلسل سو کیوں رہے ہیں،ہم سے بات کیوں نہیں کرتے،
ڈاکٹر نے دوائیوں میں نیند کی دوائیں شامل کی ہوئی ہیں،جبار صاحب بیٹی کو دلاسا دیتے ہوئے بولے،
میں نے عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا ہے رابعہ،تمھارے بھائیوں سے تمہارا حصہ ہمیں اب عدالت دلوائے گی
جبار اپنی بات ختم کرتے ہوئے،سر جھٹک کر باہر کی طرف جانے لگا۔
بابا!
بابا مجھ سے غلطی ہوگئی ہے،مجھے پلیز معاف کردیں،بابا میں بھٹک گئی تھی،مجھے معاف کردیں
بس!
بس میری بچی؛
کچھ نہیں ہوا
کچھ نہیں کیا تم نے.
ماہ نور!
یہ سر پہ کیا ہوا ہے تمھارے؟
کچھ؛
کچھ نہیں بابا وہ میں،وہ میرا پاؤں،پاؤں پھسل گیا تھا میرا
ماہ نور بات دبانے کی کوشش کرتے ہوئے ناکام ثابت ہوئی۔
اسامہ:یہ تم نے اچھا نہیں کیا،آئندہ میری بچی پہ ہاتھ نا اٹھانا،ابھی زندہ ہوں میں ان کا اچھا برا سب جانتا ہوں،بابا میں غصے میں تھا،بعد میں احساس ہوا مجھے،ماہ نور پہ ہاتھ نہیں اٹھانا چاہیے تھا۔
بابا اس نے قدم بھی تو ایسا اٹھایا ہے کہ کچھ بھی نہیں چھوڑا ہمارے پلے،
بس بس تم تو رہنے ہی دو،چلو جو ہوگیا تھا سو ہوگیا تھا،لیکن اپنی ساس اور سسر کو دیکھو کیسے ہماری عزت کا جنازہ نکال رہے ہیں پورے گاؤں میں،ویسے خوب اپنے پن کا ثبوت دے رہے ہیں تمھارے سسرال والے اسامہ!
نبیلہ جیٹھ اور جیٹھانی کا سارے کا سارہ غصہ اسامہ پہ نکالنے لگی،
امی! میرا سسرال ہونے سے پہلے بھی وہ سب ہمارے کچھ لگتے ہیں اور میں نے تو آپ سب کو منع کیا تھا کہ یہاں شادی نا کریں میری،ہم سب جانتے ہیں ہمیشہ سے تایا اور تائی نے ہمارے گھر کو نیچا اور اپنے بچوں کو اونچا دیکھانے کی کوشش ہی کی ہے،اور اب یہ سب ہو گیا ہے تو ان کو تو موقع ہی مل گیا ہے نا،خیر میں کرتا ہوں شہناز سے بات کے وہ اپنے ماں اور باپ کو سمجھائے ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عیشا؛
بھائی! بھائی آپ ٹھیک ہیں؟
اماں،اماں بھائی کو دیکھیں ہوش آگیا ہے جلدی آئیں،
عیشا؛ میری پلیز ایک بار ماہ نور سے بات کروا دو،
کوئی ضرورت نہیں میرے گھر میں اس منحوس کا نام لینے کی یاسر،
تمہاری یہ حالت ہو گئی اس کی وجہ سے اور ابھی بھی تم اسی کا نام لے رہے ہو،خبردار عیشا! جو اب کسی نے کسی بھی قسم کا رابطہ رکھا ان لوگوں سے،میرے مائکے میں اب کوئی نہیں میرا،رابعہ دونوں بچوں کو سمجھا رہی تھی،اور اب خاص تلقین عیشا کی طرف تھی،
اماں! جی میرا بچہ،امی آپکی بھتیجی کا کوئی قصور نہیں ابا نے مجھے کہا تھا ماموؤں کی عزت اچھالنے کو ایسے؛ماہ نور تو کبھی بھی راضی نا ہوتی،وہ تو میں نے اس کو اپنے بچپن کے پیار کی قسم دی تھی اور اس کی محبت کا ثبوت مانگا تھا،لیکن دیکھو ماں میں نے اس کو بیچ راستے میں چھوڑا،اور اللہ نے مجھے چلنے کا نہیں چھوڑا،جب تک زندہ ہوں ایسے ہی جینا پڑے گا مجھے،یاسر بات کرتے کرتے رو پڑا تھا،،،،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یا اللہ! مجھ سے جو غلطی ہوئی ہے میں نے جو اپنوں کا دل دکھایا ہے،اے میرے پروردگار مجھے معاف فرمادے،بے شک تو معاف فرمانے والا ہے،اے میرے اللہ مجھے دنیا کی بے جان مطلبی محبتوں سے نکال کر مجھے اپنی راہ پر چلا،مجھے اپنی نیک بندی بنا،
اے پروردگار!تو نے بے شک انصاف کیا،میں نے اپنوں کو دھوکا دینا چاہا تو مجھے بھی دھوکا ہی ملا،لیکن جس نے مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا،تونے اس کو کہیں کا نہیں چھوڑا؛
ماہ نور سخت سردی میں رات کے پچھلے پہر جاءنماز بچھائے صحن کے بیچ روتی ہوئی دعا میں مصروف تھی،یہ شاید پہلی مرتبہ تھا کہ وہ زندگی میں تہجد پڑھ رہی تھی،
جنوری کی سردی بھی اس پر کوئی اثر نہیں کر رہی تھی،
اس سے کچھ دن پہلے اس کی زندگی میں جو سرد رات گزری تھی جس نے نہ صرف اس کی زندگی سےبلکہ اس کے سارے خاندان کی زندگیوں سے سکون چھین لیا تھا،لیکن آج کی رات کا یہ پہر اس کو سکون بخش رہا تھا اور وہ اللہ سے دعاؤں کی سی صورت میں باتیں کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے✍️
محبت سے حقیقت کا سفر