New Novel Of 2022 The journey from love to reality 🤫🤫🤫🤫🤫episode #4

 











محبت سے حقیقت کا سفر

رائٹر
سدرہ یاسین
#4قسط نمبر 

ماہ نور بھی یہ سن کر کمرے سے باہر نکل آئی تھی،
امی!امی مجھے بابا کے پاس جانا ہے،ماہ نور التجائی لہجے میں کہہ رہی تھی،اس کی حالت پہلے غم اور پھر تیز بخار کی وجہ سے بے حال تھی،ہونٹوں پر نکاہت زرد پڑتا چہرہ،الجھے بال،اجڑی حالت میں وہ بار بار ہسپتال جانے کی منتیں کر رہی تھی کہ اتنے میں باہر دروازے پر گاڑی کے ہارن کی آواز سنائی دی،
ارم! دیکھو بیٹا کون ہے دروازے پر
نبیلہ دروازے کی طرف نظر جمائے ارم سے کہ رہی تھی،
۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟۔۔۔۔۔۔
بابا! اب آپکی طبیت کیسی ہے؟پہلے سے بہتر ہوں،میری ماہ نور کو کچھ مت کہنا کوئی اس کا کوئی قصور نہیں اسے کچھ مت کہنا،سلطان صاحب، ارشد کی بات کا جواب دیتے ساتھ ہی ماہ نور کے حق میں بول پڑے تھے،میری بچی کا قصور بس اتنا ہے کہ بچپن کے رشتے کو اس نے اپنے ذہن میں گاڑ لیا اور پگلی اس کی نبھاہ کے لیے اس راہ پہ چل دی،قصور تو ہم بڑوں کا ہے قصور تو ہمارے فیصلوں کا ہے،
چچا جان آپ پریشان نا ہوں کوئی کچھ نہیں کہے گا ماہ نور کو،آپ بس ٹھیک ہو جائیں تو ہم گھر چلیں گے،رضا سلطان چچا کو حوصلہ دینے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بے غیرت،بے حیا!
اسامہ نے زور دار کئی تھپڑ ماہ نور کے دونوں گالوں پر رسید کر دیے اور آخر میں زور دار دھکا دیتے ہوئے اسے خود سے پرے دھکیلا،ماہ نور کا سر برآمدے کی دیوار سے ٹکرایا اور ماتھے سے خون بہنے لگا
اسامہ بس کردو،جان لو گے اس کی؟
ہاں امی!میں جان سے مار دوں گا اس بے غیرت کو،اس نے اتنا بڑا قدم اٹھایا کیسے:اسامہ کا دھیان باقی سب کی طرف گیا،کہاں تھے آپ سب لوگ اس وقت،بابا کہاں ہیں؟
اسامہ نے ایک ہی سانس میں کئی سوال داغ دیے۔۔۔۔۔،کوئی جواب نہ ملنے پر اور سب کو ماہ نور کی طرف متوجہ دیکھ کر اور اس کی حالت دیکھ کر اسامہ باہر کی طرف چلا گیا
ماہ نور اٹھو،چچی اس کو تو بہت تیز بخار ہے،شہناز سے نند کی یہ حالت دیکھی نہیں جارہی تھی آخر اس رشتے سے پہلے وہ دونوں اچھی سہیلیاں رہ چکی تھیں اور ماہ نور کی ہی زد پر شہناز اس کی بھابھی بن کر ان کے گھر آئی تھی،
نیلم فرسٹ ایڈ بوکس لے کر آؤ،ارم اس کو کمرے میں لے جانے کے لئے میری مدد کرو،شہناز بھابھی فرسٹ ایڈباکس کمرے میں ہی پڑا ہے اس کو بخار کی دوا دی تو وہیں چھوڑ آئی تھی میں،
نیلم نے تلخ لہجے میں جواب دیا اور کچن کی طرف بڑھ گئی۔۔۔۔۔۔
آ گئے تم دونوں؟میری بچی کہاں ہے اسامہ!
نسرین تائی نے دروازے میں داخل ہوتے ہوئے اسامہ سے پوچھا اور داماد کو اندر آنے کو کہا،تائی امی!تایا کہاں ہیں؟
وہ تو بیٹا ابھی ہسپتال کے لیے نکلے ہیں تمہارے ابا کے پاس،اصل میں رضا رات سے وہیں ہے اور اس کا آج امتحان بھی ہے تو تمہارے تایا ارشد کے ساتھ رکیں گے رضا کو واپس بھیج دیں گے،
کیا!کیا ہوا تائی امی بابا کو اور ہسپتال کب؟کیوں؟
میں تو سمجھا تھا کے بابا گھر پہ نہیں ہیں تو آپ لوگوں کی طرف آئے ہونگے،لے تمہیں نہیں پتا؟ رات ہی دل کا دورہ پڑ گیا تھا سلطان کو،اب حالت خطرے سے باہر ہے۔ بیٹا بیٹھو کچھ کھا پی لو،نہیں تائی امی میں ہسپتال جا رہا ہوں بیٹا رک۔۔۔۔و
نسرین کی بات کو ان سنی کرتے ہوئے اسامہ صحن میں بڑے بڑے قدم بھرتا وہاں سے چلا گیا،
امی!اسامہ بھائی نے ماہ نور کو اتنا مارا اتنا مارا کے مار مار کے بے حال کر دیا ہے اور اس کے سر سے خون بہہ رہا ہے،شہناز آپی اس کی مرہم پٹی کر رہی ہیں،ارم ماں کو خبر دینے آئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہائے اللہ۔۔۔۔۔اللہ یہ کیا ہوگیا میرے بچے کو: رابعہ تڑپنے کی سی حالت میں ہسپتال کی دیوار کے ساتھ لگی کئ خالی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھی وین کر رہی تھی،امی کچھ نہیں ہوگا بھائی ٹھیک ہو جائیں گے آپ حوصلہ کریں،عیشا یہ اس منحوس ماہ نور کی وجہ سے ہوا ہے وہ منحوس تمہارے بھائی  کی اس حالت کی ذمہ دار ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
اگر میرے یاسر کو کچھ ہوگیا نا تو میں سلطان بھائی کی بیٹی کا گلہ اپنے ہاتھوں سے دباؤں گی،دیکھ لینا تم،رابعہ یاسر کے ایکسیڈنٹ اور اس کی تشویش ناک حالت کی ذمہ دار اپنی بھتیجی کو ٹھہرا رہی تھی،
امی ماہ نور بیچاری کا کیا قصور اس میں،،تم چپ رہو،تمیں نہیں پتا اسی نے اکسایا ہوگا میرے بیٹے کو یہ سب کرنے کے لئے ورنہ میرا یاسر تو ایسا کبھی نہیں کر سکتا،عیشا، ماں کی بے جوڑ باتیں سننے کے ساتھ ساتھ کمرے کے دروازے میں لگے گول شیشے میں جھانک کر ہسپتال میں پڑے اپنے اکلوتے بھائی کو نم آنکھوں سے دیکھ رہی تھی جو بے سدھ بیڈ پر پرا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہ نور مت روؤ میری جان،بس کردو خدا کا واسطہ ہے سنبھالو خود کو مر جاؤ گی ایسے تو،ماہ نور کے سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور بال ابھی بھی کھلے تھے لیکن پٹی کی وجہ سے وہ پیچھے کی طرف ہی کندھوں پر بکھرے پڑے تھے،شہناز اس کو گلے سے لگا کر دلاسے دے رہی تھی پر وہ مسلسل کسی ایسے بچے کی طرح رو رہی تھی جس سے اس کی من پسند چیز چھین لی جائے تو اس کو تب تک صبر نہیں آتا جب تک وہ چیز اس کو دوبارہ مل نہیں جاتی،
پورے گھر میں اگر اس سے کسی کو ہمدردی رہ گئی تھی تو وہ شہناز تھی،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بابا! آپ ٹھیک تو ہیں؟ اسامہ باپ کے قریب ہو کر خیریت دریافت کرنے لگا
میری بچی کو میرے پاس لے کر آؤ یا مجھے گھر لے چلو،وہ تو اتنی حساس ہے چھوٹی سی غلطی ہو جانے پر گھنٹوں روتی رہتی ہے،اسے ضروت ہوگی اپنے بابا کی اور میں یہاں پڑا ہوں،سلطان صاحب کی آنکھوں میں آنسوں بھر آئے تھے،
بابا آپ آرام کریں ماہ نور  کے پاس سب ہیں گھر پہ اور ڈاکٹرز نے آپ کو زیادہ بات کرنے سے منع کیا ہے آپ پلیز آرام کریں،آئیں بھائی آپ بھی باہر آ کے بیٹھ جائیں،ارشد معاملہ فہمی کرتے ہوئے اسامہ کو باہر لے آیا۔
بھائی!وہ یاسر بھی ہسپتال میں پڑا ہے،مگر یہ بات بابا سے چھپانی پڑے گی کیونکہ بابا کو کسی بھی قسم کی پریشانی پہنچنا خطرے سے خالی نہیں،
اچھا اچھا تم زیادہ بڑے مت بنو ؛
ایک دو دن میں شہر چلے جاؤ اور وہاں جا کر کاروبار سنبھالو،یہاں میں دیکھ لوں گا سب،اسامہ نے اکھڑے لہجے میں ارشد کو شہر جانے کو کہا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔

Share this

Related Posts

Prev Post
« next
Next Post
PREVIOUS »
Mega Movies Hub - 500+ Dual Audio Movies & Web Series

Mega Movies Hub

500+ Dual Audio Movies & Web Series - All in One Place

Loading movies...
🔄 Loading movies, please wait...