محبت سے حقیقت کا سفر
رائٹرسدرہ یاسین#5قسط نمبر
رابعہ روتے ہوئے ایک دم سے دیوار کے ساتھ جا لگی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امی!خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے،بابا اب بلکل ٹھیک ہیں،اور آج ان کو ہسپتال سے ڈسچارج کر دیا جائے گا،لیکن امی گھر کی بات باہر کیسے نکلی،محلے میں وہ بات پھیل رہی ہے،جب کے تایا ابا اور ہم سب کے علاوہ تو اس رات کے بارے میں کسی کو کچھ علم نہیں تھا،
ارشد پریشان نظروں سے رابعہ کی طرف مسلسل دیکھے جا رہا تھا۔
بیٹا! جو بات تمھاری تائی کو پتہ ہو،بھلا یہ کیسے ممکن کے پورے گاؤں میں نا پھیلے،اور مجھے تو اس بات کا پہلے سے ہی پتا تھا کہ نسرین اور سکندر معاملے کو سلجھانے کی بجائے اور ہوا دیں گے،
مجھے تو یہ سوچ سوچ کر پریشانی ہو رہی کے تمھارے باپ کی تو اتنی عزت تھی گاؤں بھر میں اگرچہ وہ سکندر بھائی سے چھوٹے ہیں لیکن پھر بھی پورا گاؤں تمھارے باپ کو زیادہ عزت دیتا ہے،اب جب یہ بات پھیل رہی ہے تو لوگ کیا کیا باتیں بنائیں گے،
نسرین نے اچھا نہیں کیا یہ بات ہر جگہ پھیلا کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوصلہ کریں اماں!
شکر ہے اللہ نے یاسر بھائی کی جان بخش دی،
ابو: بھائی کیا کبھی نہیں چل پائیں گے؟
عیشا سوالیہ نظروں سے کبھی ماں تو کبھی باپ کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
ابو! بھائی مسلسل سو کیوں رہے ہیں،ہم سے بات کیوں نہیں کرتے،
ڈاکٹر نے دوائیوں میں نیند کی دوائیں شامل کی ہوئی ہیں،جبار صاحب بیٹی کو دلاسا دیتے ہوئے بولے،
میں نے عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا ہے رابعہ،تمھارے بھائیوں سے تمہارا حصہ ہمیں اب عدالت دلوائے گی
جبار اپنی بات ختم کرتے ہوئے،سر جھٹک کر باہر کی طرف جانے لگا۔
بابا!
بابا مجھ سے غلطی ہوگئی ہے،مجھے پلیز معاف کردیں،بابا میں بھٹک گئی تھی،مجھے معاف کردیں
بس!
بس میری بچی؛
کچھ نہیں ہوا
کچھ نہیں کیا تم نے.
ماہ نور!
یہ سر پہ کیا ہوا ہے تمھارے؟
کچھ؛
کچھ نہیں بابا وہ میں،وہ میرا پاؤں،پاؤں پھسل گیا تھا میرا
ماہ نور بات دبانے کی کوشش کرتے ہوئے ناکام ثابت ہوئی۔
اسامہ:یہ تم نے اچھا نہیں کیا،آئندہ میری بچی پہ ہاتھ نا اٹھانا،ابھی زندہ ہوں میں ان کا اچھا برا سب جانتا ہوں،بابا میں غصے میں تھا،بعد میں احساس ہوا مجھے،ماہ نور پہ ہاتھ نہیں اٹھانا چاہیے تھا۔
بابا اس نے قدم بھی تو ایسا اٹھایا ہے کہ کچھ بھی نہیں چھوڑا ہمارے پلے،
بس بس تم تو رہنے ہی دو،چلو جو ہوگیا تھا سو ہوگیا تھا،لیکن اپنی ساس اور سسر کو دیکھو کیسے ہماری عزت کا جنازہ نکال رہے ہیں پورے گاؤں میں،ویسے خوب اپنے پن کا ثبوت دے رہے ہیں تمھارے سسرال والے اسامہ!
نبیلہ جیٹھ اور جیٹھانی کا سارے کا سارہ غصہ اسامہ پہ نکالنے لگی،
امی! میرا سسرال ہونے سے پہلے بھی وہ سب ہمارے کچھ لگتے ہیں اور میں نے تو آپ سب کو منع کیا تھا کہ یہاں شادی نا کریں میری،ہم سب جانتے ہیں ہمیشہ سے تایا اور تائی نے ہمارے گھر کو نیچا اور اپنے بچوں کو اونچا دیکھانے کی کوشش ہی کی ہے،اور اب یہ سب ہو گیا ہے تو ان کو تو موقع ہی مل گیا ہے نا،خیر میں کرتا ہوں شہناز سے بات کے وہ اپنے ماں اور باپ کو سمجھائے ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عیشا؛
بھائی! بھائی آپ ٹھیک ہیں؟
اماں،اماں بھائی کو دیکھیں ہوش آگیا ہے جلدی آئیں،
عیشا؛ میری پلیز ایک بار ماہ نور سے بات کروا دو،
کوئی ضرورت نہیں میرے گھر میں اس منحوس کا نام لینے کی یاسر،
تمہاری یہ حالت ہو گئی اس کی وجہ سے اور ابھی بھی تم اسی کا نام لے رہے ہو،خبردار عیشا! جو اب کسی نے کسی بھی قسم کا رابطہ رکھا ان لوگوں سے،میرے مائکے میں اب کوئی نہیں میرا،رابعہ دونوں بچوں کو سمجھا رہی تھی،اور اب خاص تلقین عیشا کی طرف تھی،
اماں! جی میرا بچہ،امی آپکی بھتیجی کا کوئی قصور نہیں ابا نے مجھے کہا تھا ماموؤں کی عزت اچھالنے کو ایسے؛ماہ نور تو کبھی بھی راضی نا ہوتی،وہ تو میں نے اس کو اپنے بچپن کے پیار کی قسم دی تھی اور اس کی محبت کا ثبوت مانگا تھا،لیکن دیکھو ماں میں نے اس کو بیچ راستے میں چھوڑا،اور اللہ نے مجھے چلنے کا نہیں چھوڑا،جب تک زندہ ہوں ایسے ہی جینا پڑے گا مجھے،یاسر بات کرتے کرتے رو پڑا تھا،،،،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یا اللہ! مجھ سے جو غلطی ہوئی ہے میں نے جو اپنوں کا دل دکھایا ہے،اے میرے پروردگار مجھے معاف فرمادے،بے شک تو معاف فرمانے والا ہے،اے میرے اللہ مجھے دنیا کی بے جان مطلبی محبتوں سے نکال کر مجھے اپنی راہ پر چلا،مجھے اپنی نیک بندی بنا،
اے پروردگار!تو نے بے شک انصاف کیا،میں نے اپنوں کو دھوکا دینا چاہا تو مجھے بھی دھوکا ہی ملا،لیکن جس نے مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا،تونے اس کو کہیں کا نہیں چھوڑا؛
ماہ نور سخت سردی میں رات کے پچھلے پہر جاءنماز بچھائے صحن کے بیچ روتی ہوئی دعا میں مصروف تھی،یہ شاید پہلی مرتبہ تھا کہ وہ زندگی میں تہجد پڑھ رہی تھی،
جنوری کی سردی بھی اس پر کوئی اثر نہیں کر رہی تھی،
اس سے کچھ دن پہلے اس کی زندگی میں جو سرد رات گزری تھی جس نے نہ صرف اس کی زندگی سےبلکہ اس کے سارے خاندان کی زندگیوں سے سکون چھین لیا تھا،لیکن آج کی رات کا یہ پہر اس کو سکون بخش رہا تھا اور وہ اللہ سے دعاؤں کی سی صورت میں باتیں کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے✍️
محبت سے حقیقت کا سفر

EmoticonEmoticon